کتاب کا نام:

ابھی موسم نہیں بدلا 

مصنف:

ڈآکٹرنذیرتبسم

سال اشاعت:

۲۰۰۶

صفحات:

۱۲۰

قیمت:

۱۵۰روپے

ناشر:

سنڈیکیٹ آف رائٹرز پشاور پاکستان

تبصرہ :

بادشاہ منیربخاری

نذیرتبسم صوبہ سرحد کے قلم قبیلے کا جانا پہچانا نام ہے۔ ان کا پہلا شعری مجموعہ "تم اداس مت ہونا" کے نام سے ۱۳برس پہلے منظر عام پر آیا تھا، "تم اداس مت ہونا" صوبہ سرحدسے چھپنے والے معیاری شعری مجموعوں میں سے ایک ہے، جس میں شاعر نے ذات سے کائنات کا سفر محبتوں کے جلو میں کیا ہے اور اس مجموعے میں محبت رنگ بدل بدل کر خود کو منواتی رہی ہے، محبت کو ان گنت رنگوں اور فکر کے مختلف زاؤیوں سے پیش کرنے والے نذیرتبسم کا دوسرا مجموعہ "ابھی موسم نہیں بدلا" کے نام سے چھپا ہے، اس شعری مجموعے کو "تم اداس مت ہونا" کا تسلسل تو نہيں کہیں گے اس لیے کہ نئے مجموعے میں محبت کے اور ہزار رنگ سامنے آئے ہیں اور فکر کی کچھ اور جہتیں، جدیددورکےتقاضے، معاشرےاورذات کےنئےکرب بھی اس میں سمٹ آئے ہیں لیکن شاعرانہ لہجہ کا وہ بانکپن اس مجموعے میں ویسا کا ویسا ہی ہے۔ کہتے ہیں کہ وقت بے شمار ترجیحات کو بدل دیتا ہے مگر "ابھی موسم نہیں بدلا" میں وقت نذیرتبسم کی ترجیحات کو ذرا بھی نہیں بدل سکا۔ وہ زندگی سے کچھ زیادہ چاہنے کا قائل نہیں ہے اسے بس من کا موسم اچھا چاہیئے اور اس مجموعے میں بھی اس کے من کا موسم جوبن پر ہے،

خمار ہجر سے دامن چھڑاکر نشاط و وصل میں رہنے لگے ہو
تبسم جب سے وہ تم کو ملا ہے بڑی اچھی غزل کہنے لگے ہو

خاطرغزنوی کتاب کے فلیب پر لکھتے ہیں "سرحدکی اردوغزل پر مقالہ لکھتے ہوئے اس نے اردو شاعری کی پوری تاریخ کا جب جائزہ لیا تو اسے غزل کی بدلتی ہوئی روح سے آشنائی ہوئی اور یوں اس بھرپورمطالعے نے اس کی اپنی شاعری پر بھی ایک مثبت اثر ہی نہیں ڈالا بلکہ غزل میں جدید حسیات کے رجحانات کا شعور بھی بخشا۔ نذیر کی غزل لمحہ موجود میں جدید اردو شاعری کے منطقے میں سانس لیتی محسوس ہوتی ہے، شعری جمالیات اور عصری آگہی کے امتزاج نے اس کا لہجہ اور اسلوب متعین کیا ہے۔ وہ سرحد میں نئے شاعری کے ایوان میں ایک مقام و مرتبہ حاصل کرچکا ہے اور اسے بلاشبہ سرحد میں نئی اور جدید غزل کی آبرو قرار دیا جا سکتا ہے" خاطرغزنوی کے لکھے ہوئے اس فلیپ کا لفظ لفظ نذیرتبسم کی شاعری پر صادق آتا ہے، غزل کہنا بہت مشکل اور کٹھن کام ہے وہ اس لیے کہ غزل کا اپنا ایک مزاج ہے جو تربیت، مشق، مہارت، ڈکشن، روایات کا عمیق مطالعہ، فنی پختگی اور جمالیاتی ذوق مانگتا ہے ان سب کا توازن بہت کم شاعروں میں پایا جاتا ہے۔ صوبہ سرحد کی سطح پر اگر چند ایک نام لیے جائیں تو ان میں نذیرتبسم کانام نمایاں ہو گا۔ اس لیے کہ نذیرتبسم کے لیے شاعری پیشہ و مشغلہ نہیں وہ اسے عبادت سمجھتے ہیں۔ اور اسی عبادت کو تدریس کا جامہ پہنا کر گزشتہ تین دہائیوں سے ادبیات میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والوں میں بانٹتے رہے ہیں۔ جس شخص کا اوڑھنا بچھونا شاعری ہو، جس کے دوست شاعر ہوں اور جسے شاعری کی محفلوں میں سکون ملتا ہو تو یہ کیسے ممکن ہے کہ اس کے بیاض شاعری میں اثر نہ ہو۔

تبسم،ایک تو میں شاعری خود ساتھ لایا
اور اب ماحول بھی کچھ شاعرانہ مل گیا ہے
کیا کرشمہ میرے خالق نے دکھایا ہے نذیر
مجھے فنکاربنایا اسے شہکار کیا
میں اپنی عادتوں میں ایک مشکل آدمی ہوں
میرے ہمراہ چلنے میں بہت دشواریاں ہیں
میں ایک شعر لکھوں گا تمہاری آنکھوں پر
وہ ایک شعر تمہیں لازوال کر دے گا
بجز خموشی نہ ہو گا کوئی جواب نذیر
وہ آنکھوں آنکھوں میں ایسا سوال کردے گا

نذیرتبسم کی شاعری میں جمالیاتی رنگ ہی نہیں ملتے بلکہ اپنے عصر کا دکھ بھی ملتا ہے۔یہ دکھ نذیرتبسم کے ہم عصرشعراء غلام محمد قاصر اور عزیزاعجاز کے ہاں بھی ہیں لیکن نذیرتبسم کے بیان کا قرینہ ان سے مختلف ہے، نذیرتبسم جس معاشرے میں رہتا ہے اس کا کرب اپنے اندر محسوس کرتا ہے، گزشتہ چند دہائیوں سے ہمارے ملک کے حالات، معاشرتی ناآسودگی، اقدار کی شکست و ریخت، ہماری صدیوں کی تہذیب کا تیزی سے مٹتا ہوا منظر نامہ، سیاسی، معاشی، معاشرتی اور نفسیاتی خسارے معاشرے کے دردِدل رکھنے والے ایک حساس فرد کی طرح نذیرتبسم پر بھی اپنا اثرڈالتے ہیں۔ اور یہ اثرات ان کی شاعری میں ایک کرب بن کر ابھرتے ہیں۔

بجا کہ شہر سیاست میں سب روا ہے نذیر
مگر ضمیر کا کچھ تو خیال رکھا جائے

ہماری کم نگاہی اور اب کیا دن دکھائے
ہمارے فیصلے بھی اب ادھر ہونے لگے ہیں

امید ہم نے بھی رکھی تو کس عدالت سے
سماعتوں پہ جسے اختیار تھا ہی نہیں

کتنا زہر آلود کروگے، دریاؤں کا پانی
اب تو پرندوں نے بھی زمین پراترنا چھوڑدیا ہے

یہ تم کس بے حسی کے دوڑ میں الجھے ہوئے ہو
عزیزو، اب تو آنگن میں دھواں تک آ گیا ہے

پہاڑوں پر بھی اب دکھ اُگ رہے ہیں نارسائی کے
نہ وہ اثمار باقی ہیں نہ وہ اشجار ملتے ہیں

شوکت واسطی کی ایک وجہ شہرت شہر پشاور پر اس کے اشعار بھی ہیں اپنے شہر سے کون محبت نہيں کرتا، بیرون ملک لوگ اپنے شہر سے محبت کے طور پر اپنے دکان، ہوٹل، یہاں تک کی ٹیکسی کا نام اپنے شہر کے نام پر رکھتے ہیں اس لیے دنیا کے ۴۷ شہروں میں پشاورکے نام پر ریسٹورنٹ ہیں۔ نذیرتبسم بھی پشاوری ہیں اور پکا پکا پشاوری، چلتا پھرتا پشاوری، اس کی گفتگو، اس کا رکھ رکھاؤ، اس کا دلبرانہ لہجہ، اس کی چال ڈھال، اور اس کی خوش خوراکی سب سچے پشاوری ہونے کے سبب ہیں۔ اس کی شاعری میںبھی پشاور سے اس کی محبت چھلکتی نظر آتی ہے یہ محبت شوکت واسطی والی محبت نہيں ہے بلکہ اس عاشق کے نوحے ہیں جو اپنے مٹتے ہوئے اقدار اور شہر کی نشانیوں کا ماتم کر رہا ہوتا ہے۔

مرے شہرپشاور، وہ تیری آبرو تھے
تری عظمت کے وہ مینار بھی گم ہو رہے ہیں

تبسم، کیوں تجھے پھر بھی پشاور اچھا لگتا ہے
کہ اب اس شہر میں باقی ہیں تیرے مہرباں، کتنے

جنت ارضی کی جتنی رونقیں ہیں، اک طرف
اور مرے شہرپشاور کی مثال، اپنی جگہ

پشاور
میں اک شہرفسردہ ہوں
جو اپنی گرد ہوتی راکھ میں بجھنے لگا ہے
کہ جس کے خال و خد مجروح ہوتے جارہےہیں
مری تاریخ میرے سامنے گم ہو رہی ہے
مرے چاروں طرف مکڑی نے جالے بُن دئیے ہیں
یہ نامانوس سے منظر مجھے الجھا رہے ہیں
مری پہچان کو
تابوت میں عرصے سے رکھا جا چکا ہے
اے میرے باسیو!
مجھ کو فقط اتنا بتا دو
مری تدفین میں اب اور کتنی دیر باقی رہ گئی ہے

بقول ڈاکٹرریاض مجید "روشنی اور آئینے سے بدگماں لوگوں کے درمیان تبسم کی شاعری محبت کے قلم سے کھینچی ہوئی وہ لکیر ہے جو اعتراف اور انکشاف کی منزلوں کی طرف رہنمائی کرتی ہےوہ مصلحت آمیز رؤیوں کے پیدا کردہ چپ کو توڑنے کا آرزومند ہے کہ ماحول میں حسن اور خیر کے معدوم ہوتے ہوئے خوابوں کی بازیافت اسی طرح ممکن ہے۔ اس کی آواز جہاں ایک طرف بین السطور چھپی سماجی حقیقتوں کی گواہ ہے وہاں صورت حال میں تبدیلی کے لیے محبت آشنا اور اخلاص دوست رابطوں کی باز آفرینی کی درد مندانہ کوشش بھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تبسم کی شاعری کی حقیقت کو سمجھنے کے لیے حرف کی یہ شہادت اس کوایک سچا شاعر ہی نہیں معاشرے میں ہونے والی تبدیلیوں کو کھلی آنکھوں اور بیدار حسو ںسے زندہ رہنے والا شاعر بھی ثابت کرتی ہے"
نذیر تبسم کا یہ شعری مجموعہ صوبہ سرحد کی شعری فضاء میں ایک خوبصورت اور نہایت ہی توانا اضافہ ہے، اس مجموعہ میں غزلوں کے ساتھ ساتھ نظمیں اور ہائیکو بھی شامل ہیں۔ اس مجموعے میں جمالیات کے رنگ بھی ہیں فکر و تہذیب کے خوبصورت دریچے بھی، فکر و جمالیات اور مٹی سے وابستگی کا مضبوط حوالہ نذیرتبسم کو اپنے ہم عصر شعراء میں ایک اعلیٰ اور منفرد مقام عطا کرتا ہے اور بسیار گوئی سے اس کے پہلو تہی نے اسے واقعتاً ایک سچا شاعر بنا دیا ہے۔
مجھے تھوڑی توجہ چاہیئے تھی سواپنےعشق میں خود مبتلا ہوں
تبسم، میری محرومی یہی ہے کہ میں اوروں سے ہٹ کرسوچتا ہوں

 

اوپر جائیں  |   پرنٹ کیجئےِ
انگریزی ورژن ای میل چیک کریں مرکزی صحفہ پرنٹ پسندیدہ سائٹ بنائیں رابطہ کیجئے www.shahzadahmad.com www.shahzadahmad.com