کتاب کا نام:

بیان اقبال )نیاتناظر (   

 مصنف :

ڈاکٹرارشادشاکراعوان

سال اشاعت:

۲۰۰۸

صفحات:

۲۰۶

قیمت:

۱۰۵روپے

ناشر:

اقبال اکادمی پاکستان، لاہور

تبصرہ :

بادشاہ منیربخاری

ڈاکٹرارشادشاکراعوان مشہورماہراقبالیات ہیں انہوں نے اقبالیات میں پی ایچ ڈی کی ہے، ان کی نظر اقبال پر کافی گہری ہے، ان کی پی ایچ ڈی کا مقالہ جو کتابی صورت میں شایع ہوا ہے دیکھنے کی چیز ہے۔ سرزمین ہزارہ سے ان کا تعلق ہے، اس سرزمین سے پہلے ہی ڈاکٹرسیدعبداللھ، ڈاکٹرصابرکلوروی اور ڈاکٹرایوب صابر ماہرین اقبالیات کے صف اول میں جگہ پا چکے ہیں۔ ڈاکٹرصابرکلوروی نے اقبال پر حقیقی معنوں میں کام کیا اور ان کا سارا متروک کلام جمع کیا ان کی ایک کتاب دریافت کی اور اقبال پر بے شمار تحقیقی مضامین تحریر کیے، جبکہ ڈاکٹرایوب صابر نے اقبال پر اٹھائے جانے والے اعتراضات کے جوابات دئیے ہیں اور اقبال دشمنی کا جائزہ لیا ہے۔
زیرتبصرہ کتاب "بیان اقبال )نیاتناظر ( ڈاکٹرارشادشاکراعوان کی اقبالیات پر تازہ تصنیف ہے اور خالصتاً ان کی اپنی اختراعات و آراء پر مبنی ہے۔ اقبالیات پر بہت کم لکھا گیا ہے لیکن اس کم لکھے ہوئے کو زیادہ مرتبہ دھرایاگیا ہے، اردو کا ہر چوتھا لکھاری ماہر اقبالیات بننے کی خبط میں مبتلا ہے، اور پھر اقبال انڈسٹری والوں نے نقل درنقل کے ذریعہ افکار اقبال کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ اقبال پر حقیقی معنوں میں کام بہت ہی کم ہوا ہے۔ اقبال پر اصل کام ان کے مشہورعالم خطبوں اور ان کی فلسفیانہ کتابوں پر ہونا چاہیئے، لیکن چونکہ ان کا بیشترکام انگریزی میں ہے اس لیے اس کو کوئی ہاتھ نہیں لگاتا ان کے اردو کلام پر تبصرہ در تبصرہ ان ہی باتوں کو دہرایا جاتا ہے جو ادب کے طالب علموں کو زبانی یاد ہو چکی ہیں۔ ایسے میں اقبالیات پر جو بھی کتاب آتی ہے تو ہم یہی سوچتے ہیں کہ یہ کتاب بھی اقبالیات پر لکھی گئی چند کتابوں کو سامنے رکھ کر ان سے کٹ پیسٹ کرکے بنائی گئی ہو گی۔
زیرتبصرہ کتاب میں بھی کوئی نیا موضوع نہیں ہے لیکن پرانے موضوعات کو نئے انداز میں پیش کیا گیا ہے، کتاب کے مصنف نے جتنے بھی دلائل دئیے ہیں ان کی تائید یا تردید میں اس لیے کوئی بات نہیں کی جا سکتی کہ انہوں نے جو سوچا جو محسوس کیا اسے قلم کےسپرد کیا ہے جس کے لیے ان کے ذہن رسا کو داد دی جا سکتی ہے لیکن اقبال کے علم،حکمت اور کام پر ایساکرنے سے کوئی خوشگوار اثر نہیں پڑتا بلکہ اقبال کے فکر کو مزید الجھانے کا جو سلسلہ چل نکلاہے اس کو تقویت ملتی ہے۔
کتاب کو مختلف مضامین میں تقسیم کیا گیا ہے، کتاب میں کل نو مضامین شامل کیے گئے ہیں جن کی ترتیب کچھ یوں ہے ۱۔ فکراقبال کے ابتدائی خال وخط ۲۔ اقبال اور متحدہ قومیت ۳۔ اقبال کا تصورملت اور آزادئی ہند ۴۔ علامہ اقبال اور "پاکستان اسکیم" ۵۔اقبال اور عشق و خرد  ۶۔ اقبال اور تہذیب مغرب ۷۔ اقبال اورخاک مدینہ و نجف  ۸۔ اقبال اور فقہ اسلامی کی تدوین نو  ۹۔ محراب گل افغان کے افکار۔۔ایک جائزہ۔
ان مختلف مضامین سے اندازہ لگانا انتہائی آسان ہے کہ اقبال کےبیان کے حوالے سے اس میں کوئی خاص جدت نہیں ہو سکتی اس لیے کہ ان موضوعات کو ماہرین اقبالیات نے کئی حوالوں سے سپرد قلم کیا ہے اور پھر ان موضوعات پر بحث در بحث کے کئی دور بھی گزر چکے ہیں اور اب یہ موضوعات بہت حد تک بے رس ہو گئے ہیں۔ لیکن اس کتاب کی ایک اہم خوبی یہ ہے کہ اردو میں عربی کا قلم لگانے کی شعوری کوشش کی گئی ہے جس سے نفس مضمون کو سمجھنا قدرے مشکل ضرور ہو جاتا ہےلیکن مصنف کی عربی دانی کی داد دینی پڑھتی ہے۔
کتاب کا چوتھا مضمون "علامہ اقبال اور پاکستان اسکیم" پڑھنے کی چیز ہے۔ ہم حقیقت سے روگردانی کی جتنی بھی کوشش کریں، حقیقت پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوتا حقیقت حقیقت ہی رہتی ہے، علامہ اقبال کو صحیح ثابت کرنے کے لیے چودھری رحمت علی کو جھٹلانا کہاں کا انصاف ہے، چوھدری رحمت علی نے جو کچھ کیا وہ کم اہم نہیں ہے بلکہ انہوں نے تو ایک واضح تصور دیا ہے، ایک واضح سرحدیں رکھنے والے پاکستان کا نعرہ بلند کیا جبکہ اس دور میں اقبال نے جو منصوبہ یا خیال پیش کیا تھا وہ ایک آزاد ملک یا مکمل اسلامی مملکت کا نہیں تھا اس حقیقت کو جھٹلانے کی بار بار کوشش کی گئی لیکن جتنا اس مسئلے کو چھیڑاجائےگااور حقیقتیں سامنے آئیں گی جو یقیناً سب جانتے ہیں کہ علامہ اقبال کی حق میں نہیں جاتیں، ایک ایسے مسئلہ کو جس میں خواہ مخواہ علامہ اقبال کو لانا اور پھر ایسی دلیلیں دینا جس سے علامہ اقبال کا قد گھٹ جائے ماہرین اقبالیات کو زیب نہیں دیتا اس لیےکہ اس سلسلے میں ساری حقیقتیں اب دستاویزی صورت میں محفوظ ہو چکی ہیں۔ اس مضمون میں مصنف نے جتنےبھی دلائل دئیے ہیں وہ علامہ اقبال کے حق میں نہیں جاتے اس لیے کہ یہ سارے دلائل دوسری کتابوں کے ان خوشوں سے نقل کیے گئے ہیں جن کو کسی اورنے کہیں سے نقل کیا اور سیاق و سباق کے بغیر ایسی تحریروں کا نقل کر دینا فائدہ کا باعث نہیں ہو سکتا۔
کتاب بہت ہی خوبصورت گیٹ اپ میں چھپی ہے اور کتاب پر مصنف کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی کا تبصرہ بھی دیا گیا ہے۔

 

اوپر جائیں  |   پرنٹ کیجئےِ
انگریزی ورژن ای میل چیک کریں مرکزی صحفہ پرنٹ پسندیدہ سائٹ بنائیں رابطہ کیجئے www.shahzadahmad.com www.shahzadahmad.com