کتاب کا نام:

بہت گہری اداسی ہے 

مصنف:

بشریٰ فرخ 

سال اشاعت:

جون ۲۰۰۷

صفحات:

۲۱۱

قیمت:

۱۵۰روپے

ناشر:

ایڈورٹائزنگ پروموشنل سروسز،پشاور 

تبصرہ :

بادشاہ منیربخاری

"بہت گہری اداسی ہے" بشریٰ فرخ کا تیسرا شعری مجموعہ ہے۔اس سےپہلےان کےدوشعری مجموعے "اک قیامت ہےلمحہ موجود" اور "ادھوری محبت کا سفر" چھپ چکے ہیں۔ زیرتبصرہ کتاب انتہائی خوبصورت گیٹ اپ چھپی ہے جس سے کتاب دیکھنےوالےکی جمالیاتی حِس کو یقیناً تحریک ملتی ہے۔ بشریٰ فرخ پشاور کی شاعرات میں کافی شہرت یافتہ ہو گئی ہیں اور اوپرتلےتین شعری مجموعوں کی اشاعت سے بھی ان کی شہرت میں اضافہ ہوا ہے، ان کی شہرت کی بنیادی وجہ ٹی وی سے ان کی وابستگی ہے۔ بشریٰ فرخ کی شاعری میں ایک عورت بولتی ہے۔ اور یہی ان کی شاعری کی سب سے بڑی خوبی بھی ہے اس لیے کہ ہمارے ملک کی شاعرات کی شاعری میں سب کچھ ہوتا ہے صرف عورت نہیں ہوتی، جبکہ بشریٰ فرخ کی شاعری پڑھتے ہوئے ہمیں یہ گلہ نہيں ہوتا، ان کی شاعری فکروفلسفہ سے زیادہ زمینی حقائق پر مبنی ہے۔ جہاں گوشت پوست کا انسان رہتا ہے، سوچتا ہے، دکھی ہوتا ہے، کبھی موسم، کبھی جدائی اور کبھی لاحاصلی کا دکھ اسے کچھ کھنے پر مجبور کردیتا ہے اس پر مستزاد اگر یہ دکھ کسی عورت کا ہو اور اس کا بیان شاعری میں ہو تو یقیناً اس کی بہترین صورت بشریٰ فرخ کی شاعری ہے۔

یہ دو لفظوں کا رشتہ نبھ تو جاتا ہے مگر بشریٰ
کہیں جیون نہیں ملتا، کہیں ساتھی نہیں ملتا
کبھی ہم بھی تو بشریٰ کہکشاں قدموں میں رکھتے تھے
زمیں پر آسماں سے، وقت نے کیسے گرایا ہے

کہتے ہیں شاعری اظہار کرب کا بہترین ذریعہ ہے۔ چاہے یہ ذات کے اندار کا دکھ ہو یا بیرون ذات ہونے والے حادثات و واقعات، ہر حال میں چند خارجی عوامل ہی ذات کی گہرائیوں میں مختلف شکلوں میں جمع ہوتے رہتے ہیں، یہاں تک کہ داخلی دکھ بھی خارج کے اعمال کے نتیجے میں بنتا ہے، شاعری اسی جمع ہوتے رہنے والے طوفان کوماخذمل جانے کی نوید ہے۔ شاعری کی خوبصورتی یہی ہے کہ خارج سے جتنا مواد ملتا ہے وہ خام مال کی طرح بدوضع، ٹوٹا پھوٹا اور بدنما ہوتا ہے لیکن جب شاعر کے دل پر چوٹ بن کر پڑتا ہے تو وہ کسی ماہر کاریگر کی طرح اسے تراش خراش کے خوبصورت فن پارے کی صورت میں واپس بیھجتا ہے، پھر وہ دکھ کسی حسین کسک کی صورت میں مشام جاں مہکاتا ہے اور شعر بن کر ہونٹوں پر گنگناتا ہے، بشریٰ فرخ کی شاعری بھی دراصل اسی کسک کی پیداوار ہے۔

جس شہزادے نے چنوایا فرقت کی دیواروں میں
مرتے دم تک سارے زندہ جذبے اس کے نام رہے
دل کی لوح پر نقشیدہ ہر لفظ محبت میں بشریٰ
زبریں،زیریں،پیشیں، نقطے، سارے اس کے نام رہے

بشریٰ فرخ کے تینوں شعری مجموعوں میں ایک قدر مشترک اداسی کی وہ لہر ہے جس نے ان کی شاعری میں فطری روانی پیدا کر دی ہے۔ وہ اپنی ہر غزل میں اور ہر نظم میں اس لہر کو ساتھ رکھتی ہیں، یقیناً اس لہر کی کچھ حقیقت رہی ہو گی، مگر کچھ ذاتی غم جب تحریر کی ردااوڑھ لیتے ہیں تو وہ پھر ذاتی نہيں رہتے آفاقی بن جاتے ہیں، بشریٰ کی شاعری میں اس کے دکھوں اور غموں نے وہ درجہ تو حاصل نہیں کیا کہ ہم انہیں آفاقی کہیں لیکن ان کے درد، دکھ اور غم ان کے شعروں میں صرف ان کے اپنے ذات کا استعارہ نہیں ہیں بلکہ آج کے وفا شعار عورت کا نوحہ ہیں جسے دیکھا بھی جا سکتا ہے اور محسوس بھی کیا جا سکتا ہے۔ بشریٰ کی شاعری میں ایک وسیلے نے اپنا ڈیرہ جمایا ہوا ہے ان کے جو اشعار اس وسیلے سے مملو ہیں وہ دل سے نکلتے ہیں اور دل میں جا بیٹھتے ہیں۔ جبکہ باقی شعر بھرتی کے معلوم ہوتے ہیں۔ ان کی شاعری کی عمر غالباً اتنی زیادہ نہیں ہے لیکن اس کم عرصے میں بھی وہ اپنی پہچان کرواگئی ہيں، یہ کامیابی کم فنکاروں کو نصیب ہوتی ہے۔

تمہارے دسترس میں تھی بہت دن
اب اپنے ساتھ رہنا چاہتی ہوں
کبھی دل بن کے آؤ مجھ میں دھڑکو
یہ اک پتھر سے کہنا چاہتی ہوں
پہلا زخم ہے آنکھوں سے بہنے دے لہو
رفتہ رفتہ غم چھپانے کا ہنر آ جائے گا

زیرتبصرہ کتاب میں فنی حوالے سے بیشتر مقامات پر خامیاں کھٹکتی ہیں، کچھ اشعار میں وزن کا مسئلہ، چند مقامات پر تعقید، اور کچھ شعروں اور نظموں میں غیر شاعرانہ لہجہ جس سے کتاب کا مجموعی تاثر مجروح ہو جاتا ہے۔ اچھی شاعری میں یہ عیوب نمایاں نظر آتے ہیں۔ بہرحال ان کا زیرتبصرہ مجموعہ ان کے گزشتہ مجموعوں کے مقابلے میں پختہ کاری کا مظہر ہے۔

 

اوپر جائیں  |   پرنٹ کیجئےِ
انگریزی ورژن ای میل چیک کریں مرکزی صحفہ پرنٹ پسندیدہ سائٹ بنائیں رابطہ کیجئے www.shahzadahmad.com www.shahzadahmad.com