نام کتاب:        چاندنی میں رقص                         مصنف:          شبہ طراز
سال اشاعت: فروری ۲۰۰۴؁ء                           صفحات: ۲۰۴ قیمت:۲۰۰
پبلشر: تجدید اشاعت گھر ۔ لاہور                            تبصرہ :        ڈاکٹربادشاہ منیر بخاری

          زیر تبصرہ کتاب جاپان کے مشہور ہائیکو گو شعراء کے منتخب ہائیکوز کے تراجم پر مشتمل ہے ۔ یہ تراجم پہلے انگریزی میں )Dancing in the moon Light( کے نام سے ہوئے ہیں ، اسی کتاب میں انگریزی کے تراجم بھی شامل ہیں ۔ ہائیکو ایک جاپانی صنف سخن ہے جس میں شعراء فطرت کو شعروں کا قالب دیتے ہیں ، اردو میں ہائیکو نگاری کا سلسلہ چلا ہے اور کچھ بہت ہی اچھے ہائیکو گو سامنے آئے ہیں مگر ہائیکو کے مزاج کو سمجھنا اس لیے مشکل ہے کہ یہ مزاج ایک ایسی قوم کا ہے جو ہم سے یکسر مختلف ہے ، ان کے اقدار ، ان کی سوچ، ان کی ثقافت ، ان کے گیت یہاں تک کہ ان کی خوارکیں بھی ہم سے جدا ہیں ۔اس لیے ہمارے ہاں ہائیکو میں وہ ماحول اور مزاج پیدا کرنا ممکن نہیں ہے ۔ مگر اردو میں بہت سارے ہائیکو ایسے ہیں کہ انہیں ہم جاپان کی نہیں تو برصغیر کی فطرت کے عکاس ضرور کہہ سکتے ہیں ، شبہ طراز خود بھی ہائیکو کہتی ہیں ۔ اور ان کی عمر ادب کی محبت میں صرف ہورہی ہے ، ان کا سارا گھرانہ اور خاندان کئی نسلوں سے ادب کی آبیاری کررہا ہے ، یہ کتاب ان کی ادبی خدمات میں سے ایک بہت ہی چھوٹا سا حصہ ہے ۔
          کتاب خوبصورت گیٹ آپ میں چھپی ہے اور اس کا انتساب انہوں نے ہائیکو کے تین مصروں جیسی اپنی تینوں بیٹیوں کے نام کیا ہے اور ہر ایک کے لیے ایک ایک ہائیکو لکھ کر ہائیکو کہنے میں اپنے کمال کو پہلے ہی ورق سے ثابت کردیا ہے ۔ کتاب کے شروع میں قیصر تمکین نے ‘‘ شبہ طراز کے ہائیکو )ایک تاثر( کے عنوان سے کتاب اور صاحبہ کتاب کا جائزہ پیش کیا ہے مگر ہمارے ہاں کے ادبیوں کو خود نمائی کا جو شوق ہوتا ہے وہ قیصر تمکین کو بھی ہے اور اس مضمون میں اس کا بھر پور اظہار بھی ملتا ہے ، اس خود نمائی کو اگر درگزر کیا جائے تو ان کا مضمون ایک اچھا اور دلآویز مضمون ہے ۔جس میں وہ نہ کہتے ہوئے بھی بہت کچھ کہہ گئے ہیں ۔
          ترجمہ اگر ادب کے کسی صنف یا پھر شاعری کا ہو تو بہت مشکل ہی نہیں تقریباً ناممکن ہوتا ہے اس لیے کہ شعر میں شاعربہت کم کہتا ہے اور باقی سب شاعر کے ان کہے سے اخذ کیا جاتا ہے ،ترجمہ میں کہی ہوئی بات تو منتقل ہوجاتی ہے مگر ان کہی کو ترجمہ میں لانا ممکن نہیں ہے ۔ مگر طبع ذاد تراجم نے بعض اوقات مترجم کا تخیل بھی ترجمہ میں شامل کرکے تراجم کی اہمیت کو اصل ادب سے کہیں زیادہ شہکار بنا دیا ہے ، محمد حسین آزاد کے مضامین ‘‘ نیرنگ خیال ’’ اس کی زندہ مثال ہیں ، شبہ طراز نے بھی تراجم میں حسب ضرورت اپنے تخیل کا استعمال کیا ہے ،اس تخیل کی ضرورت وہاں وہاں پڑی ہے جہاں جہاں ماحول جاپان کا اور ناظر پاکستان کا ہوتا ہے ۔
          ہائیکو کے تراجم اس سے پہلے بھی سامنے آئے ہیں ‘‘ مینو شو’’ کے نام سے ترجمہ شدہ ہائیکو ہم نے بچپن میں پڑھے تھے جس میں صرف فطرت ہی فطر ت تھی ہماری دنیا کہیں نہیں تھی جبکہ ‘‘ مینو شو ’’ کے مقابلے میں ‘‘ چاندنی میں رقص’’ میں فطرت بھی ہے اور ہماری دنیا بھی ۔
                   ٹھنڈی مست ہوا
                   جنت کی خالی محراب
                   پتوں کی آواز
                                                ہے کوئی درگاہ
                                                پیڑوں کے جُھنڈمیں چھپتی
                                                چلتی ہے پُروا
                   عالم ہے ہُو کا
                   تنہا بھوسے کا ایک ڈھیر
                   موسم ہے لُو کا
                                                قلم ، فٹا ، پرکار
                                                پڑھتے پڑھتے سو جائے
                                                ایک ادا سے نار
          درز نہیں کوئی
          چیونٹی کیسے باہر آئے
          صنعتی ترقی !
          گزشتہ چار دہائیوں سے اردو میں ہائیکو لکھے جارہے ہیں ، مگر جاپانی ہائیکو کے مزاج کو اردو ہائیکو میں لانا ممکن نہ ہوسکا ، زیر تبصرہ کتاب میں ہائیکو کے تراجم میں جاپانی ماحول کو ہندوستانی ماحول سے کچھ ایسا ملایا گیا ہے کہ اجنبیت کا احساس نہیں ہوتا ، ان تراجم سے اردو میں ہائیکو لکھنے والوں کو ضرور فائدہ ہوگا ۔ خوبصورت سرورق کی حامل یہ کتاب باذوق لوگوں کے لیے ہی ہے ۔

اوپر جائیں  |   پرنٹ کیجئےِ
انگریزی ورژن ای میل چیک کریں مرکزی صحفہ پرنٹ پسندیدہ سائٹ بنائیں رابطہ کیجئے www.shahzadahmad.com www.shahzadahmad.com