نام کتاب:        دشتِ خیال               مصنف: انجینئر مبارک احمد مبارک
سال اشاعت: ۲۰۰۵؁ء                 صفحات:۲۰۸  قیمت: ۱۵۰ روپے
پبلشر: ماہنامہ دنیائے ادب ، کراچی              تبصرہ :        ڈاکٹربادشاہ منیر بخاری

          ‘‘ دشت خیال ’’ انجینئر مبارک احمدمبارک کا پہلا مجموعہ کلام ہے ، چارسدہ سے تعلق رکھنے والے اس شاعر کا لڑکپن پشاور میں گزرا ہے جہاں اس نے اپنے وقت کے نامور اساتذکی صحبت پائی ہے ، فارغ بخاری ، رضا ہمدانی ، برق کوہاٹی ، قلندر مہمند، مولانا عبدالقادر ،خاطر غزنوی ، تاج سعید ، ایوب صابر، اجمل خٹک ، احمد فراز اور محسن احسان جیسے شاعروں اور صاحبان علم کی صحبتوں نے ان کی شعری تربیت کی ، ان کی یہ تربیت ان کے کلام میں نظر بھی آتی ہے ۔
          زیر تبصرہ کتاب میں شاعری کی صورت عہد حاضر کے تمام دکھ اپنی پوری تکلیف دہ حسیت کے ساتھ موجود ہیں ، شاعر اپنے اردگرد کے تمام معاشی ، معاشرتی اور سماجی المیوں سے گویا خود گزرے ہیں تبھی تو ان کے یہاں اس مادہ پرست دور میں انسانی جذبوں کے انحطاط کا گہرا شعوری دکھ موجود ہے ، انسان کی اخلاقی اقدار کی شکست و ریخت کا جتنا ادارک مبارک احمد کو ہے وہ ان کی شاعری کا رومانس بن کر احتجاج کی شکل میں موجود ہے ۔
          ان کی داخلی کیفیات اپنے عصر سے جڑی ہوئی ہیں ، اور ان کا ظاہری رکھ رکھاؤ اس بات کا غماز ہے کہ وہ ایک ایسے شاعر ہیں جو اپنے منصب سے آگاہ ہیں ،ان کی شاعری میں اس کے زمانے کے عمومی تخلیقی روئیے ، اس کے عہد کے اجتماعی تخلیقی رجحانات اور اس کے عصر کے اجتماعی تخلیقی امکانات سب موجود ہیں ۔ ان کا کلام قدیم اور جدید دونوں روایتوں کا حسین امتزاج ہے ، ان کے کلام کو پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ اس کے پیچھے نہ تو شاعر کی ذہنی ورزش ہے اور نہ ہی نیا پن کا جنون جو اکثر لکھنے والوں کو دوراہے پر کھڑا کرتا ہے ، اس میں ایک تازگی اور رسیلہ پن ہے جو پڑھنے والوں کو بھر پور لطف دیتا ہے ۔
          ؂       عمر بھر اپنی برتری میں رہا                      وہ تھا خوش فہم ۔ میں خوشی میں رہا
          ؂       کراچی شہر دن امن کے کب آئیں گے  ٹلے گا کب یہاں قتل و قتال کا موسم
          ؂       نکتے کیا کیا نہ نکالے احمد                       شعر میں ذہن ِ رسا نے میرے
          ؂       ہجوم دشمناں میں لے کے پتھر                    شناسا لوگ شامل ہوگئے ہیں
          ؂       گلے مل مل کے سازش کرنے والے             تری محفل میں داخل ہوگئے ہیں
          ؂       آپ آئے ہیں ، بیٹھئے تو سہی            اتنی جلدی بھی کیا ہے جانے میں
          ؂       ایک پل میں بچھڑ گیا مجھ سے                   عمر جس کو لگی تھی پانے میں
          مبارک احمد کا یہ مجموعہ شاعری ایک اچھا اورخوشگوار اضافہ ہے ، ان کے ہم نوا ، ہم مزاج اور ہم عصر شاعروں کے ساتھ ساتھ ان کے ہم عمر دیگر ادبأ اور شعراء اور نقادانِ فن ان گروہوں کو بھی متوجہ کرے گا جن کے نزدیک پہلی اور آخری بات فن کی ہوتی ہے اور جن کے تمام رشتے ‘لفظ’ کے واسطے سے جڑے رہتے ہیں ۔
          ؂       شاعری گر ہنر ہے اے احمد    اس ہنر میں کمال رکھتا ہوں

اوپر جائیں  |   پرنٹ کیجئےِ
انگریزی ورژن ای میل چیک کریں مرکزی صحفہ پرنٹ پسندیدہ سائٹ بنائیں رابطہ کیجئے www.shahzadahmad.com www.shahzadahmad.com