کتاب کا نام: |
دئیے کی آنکھ -منظوم ترجمہ |
مترجم: |
طارق محموددانش |
سال اشاعت: |
۲۰۰۸ |
صفحات: |
۲۳۷ |
قیمت: |
۱۸۰روپے |
ناشر: |
دارالشعورپبلشر،۳۷مزنگ روڈبک سٹریٹ لاہور |
تبصرہ : |
بادشاہ منیربخاری |
"دئیےکی آنکھ" صوبہ سرحد کے جوان مرگ شاعر مقبول عامر کا واحد شعری مجموعہ ہے، مقبول عامر ۱۴ستمبر ۱۹۵۵ کو بنوں میں پیدا ہوئے، ایم اے اردو تک تعلیم حاصل کی لیکن زندگی نے ان کے ساتھ وفا نہيں کی اور جوانی میں ہی وہ اس دنیا کوداغ مفارقت دےگئے۔مقبول عامرصوبہ سرحد کے ان چند اردو شاعروں ميں شامل تھے جنہوں نے اپنے خوبصورت لہجے سے اس خطے کی شاعرانہ فضاء کو متاثر کیا۔ مقبول عامر کی شاعری میں اپنے خطے سے محبت اور محبت کے نازک جذبات کی جدب بیانی قابل تعریف بھی ہے اور سب سے الگ بھی، ان کی شاعری میں جو لہجہ ملتا ہے وہ سرحدی علاقوں کے کسی دوسرے شاعر کے ہاں ہمیں نہیں ملتا، ان کی شاعری میں اپنی فکری بالیدگی میں ان کے ہم عصروں سے کہیں بڑھ کر ہے۔ زیرتبصرہ کتاب ان کے اسی مجموعہ کلام کا منظوم اردو ترجمہ ہے جسے بنوں کے طارق محمود دانش نے )دا ڈیوے سترگے ( کے نام سے ترجمہ کیا ہے۔ اس کتاب کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں اصل اردو شاعری کا متن ایک صفحہ پر اور اس کا ترجمہ سامنے کے صفحہ پر دیا گیا ہے، جس سے قارئین ایک ہی نشست میں اصل اور ترجمہ دونوں سے محظوظ ہو سکتے ہیں اور بقول افتخار درانی کے "اردو کا ابہام پشتو کی مشکل سے اورپشتو کی مشکل اردو سے مٹاتے ہیں۔"
ترجمہ کا فن مشکل ہے لیکن شاعری کا منظوم ترجمہ از حد مشکل ہے، اس سے پہلے اردو سے پشتو میں کئی تراجم ہو چکے ہیں اقبال اور فیض کو اردو سے پشتو میں ترجمہ کیا گیا ہے لیکن اقبال اور فیض کے ہاں فکر بہت بلند تر ہے اس لیے مترجمین کے لیے ترجمہ میں اس فکر کو سمیٹنے میں کافی مشکلات رہی ہیں جبکہ مقبول عامر کی شاعری میں فکر کوئی تہہ در تہہ کہانی نہیں ہے وہ زندگی کی خوبصورت اور حسیں ساعتوں کو ہمرکاب پا کر ان کا آسان مگر انتہائی ادبیت بھرے انداز سے اظہار کر دیتا ہے، ایسی شاعری کا مترجم نسبتاً آسانی کے ساتھ ترجمہ کے قالب میں ڈھال سکتا ہے۔ترجمہ کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں پشتو کا لہجہ بھی شاعرانہ ہے ورنہ بیشتر تراجم میں ترجمہ تو ہوتا ہے شاعرانہ لہجہ نہیں ہوتا۔
کتاب کے بیک فلیپ پر مقبول عامر کے نام فیض احمد فیض کے خط سے اقتباس، حبیب جالب اور احمدفراز کی آراء درج کی گئیں ہیں۔ اندرونی سائیڈ فلیپس پر بنوں کی ایک غیر معروف شخص افتخار درانی اور احمد ندیم قاسمی کی آراء درج ہیں۔ کتاب کے ابتداء میں افتخاردرانی،محمدنوازطائر، ماسٹرجمال،ممتازعلی بنگش،فرازپیرزادہ،اباسین یوسفزئی،جاویداحساس اور مترجم کی آراء پشتو زبان میں درج ہیں۔ سب نے دستورزمانے کے مطابق ستائشی لہجےمیں مترجم کے کام اور مقبول عامر کے کلام کی صراحت کی ہے۔
مقبول عامر کا یہ شعر ملاحظہ ہو
وہ فصل گل کی طرح آ تو جائے گا لیکن مجھے خزاں کی ہوادورلےگئی ہو گی
اس شعر میں انہوں نے جو بات کہی تھی وہ سچ ثابت ہوئی اور وہ اس دنیا سے چلے گئے لیکن ان کے فن اور اشعار کو لوگوں نے پذیرائی دی اور کسی شاعر کے لیے یہ بہت بڑا مرتبہ ہوتا ہےکہ اس کی شاعری کا منظوم ترجمہ دوسری زبانوں میں ہونے لگے۔ یہ ایک اچھا آغاز ہے اس طرح اگر زبانوں میں تراجم کے ذریعے قربت پیدا کی گئی یو یقیناً ہمارے پاکستان کے دور دراز علاقوں میں بسنے والے لوگ ایک دوسرے کے قریب آئیں گے اور ادب کی تفہیم بہتر انداز میں ہو سکے گی۔
کتاب خوبصورت گیٹ اپ میں چھپی ہے اور اس کا انتساب "امن اور محبت کے نام کیا گیا ہے"
مقبول عامر کے چند خوبصورت اشعار:
جتنےبھی دکھ تھےمجھےسونپ دئیے ہیں عامر دینےوالےکومیرےظرف کا اندازہ ہے
میں مر گیا ہوں وفا کے محاذ پر عامر پس شکست بھی میرا وقار زندہ ہے
میں ایسےدیس کا دہقان ہوں جہاں عامر زمین بھوک اگاتی رہی بشر کے لیے
پل بھر وہ چشم تر سے مجھے دیکھتا رہا پھراس کےآنسوؤں سےمری آنکھ بھر گئی
تشنگی اپنے نصیبوں میں لکھی تھی ورنہ فاصلہ کچھ بھی نہ تھا ہونٹ سےپیمانےتک