نام کتاب:                  دور کی آواز                       مصنف:         نذیر اشک
سال اشاعت:    مارچ ۱۹۹۹؁                            صفحات: ۲۲۴ قیمت:۱۲۵ روپے
پبلشر:  دامان آرٹس کونسل ڈیرہ اسماعیل خان          تبصرہ :        ڈاکٹربادشاہ منیر بخاری

          ‘‘دور کی آواز’’ ڈیرہ اسماعیل خان کے مشہور بزرگ شاعر نذیر اشک کا شعری مجموعہ ہے ، ۱۹۵۰ء کی دہائی میں شاعری شروع کرنے والے نذیر اشک روایت کے امین شعراء میں سے ہیں جنہوں نے شاعری کی روایت کو اپنے دور افتادہ علاقوں میں پروان چڑھایا اور شاعری کے لہجے کو ایک نیا پن بھی دیا ، شاعری کو نئے ڈکشن سے روشناس کرایا اور شاعری کی لطافت کو زندہ رکھا ۔
          نذیر اشک کی زیر تبصرہ کتاب میں لوری ، ملی نغمے ، گیت ، نثری و پابند نظمیں ، خصوصاً اپنے بیٹیوں اور احباب کے لیے کہی گئی نظمیں اور سرائیکی نظمیں بھی شامل ہیں ، کتاب کی شروعات ‘‘ ورق ناخواندہ ’’ کے عنوان سے کتاب کا دیباچہ تحریر کیا اور کتاب کے آخر میں ‘‘ رودادِ شاعری ’’ کے عنوان سے اپنی شاعری اور مختصر سوانح عمری درج کی ہے ۔
          نذیر اشک غلام محمد قاصر اور ایوب صابر کے دوستوں میں سے تھے ،وہ جہاں جہاں رہے وہاں کے ادبی حلقوں سے منسلک رہے ہیں ۔جہاں ان کی تربیت اور ذہنی پرداخت کا عمل جاری رہا جو ان کی شاعری میں نظر آتا ہے ۔نذیر اشک کی شاعری میں دلی جذبات اور پیچیدہ کیفیات کو نہایت سادگی اور سہولت سے ادا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ساتھ ہی ساتھ وہ اپنے گرد و پیش کے حالات پر ناقدانہ نظر رکھتے ہیں ۔
          ‘‘دور کی آواز’’ میں شاعری فنی حوالے بہت ہی مستحکم ہے ، شاعر کو بحور پر مکمل عبور حاصل ہے اور شاعرانہ وسائل کا استعمال بھی چابک دستی کے ساتھ کرتے ہیں ۔ ان کی شاعری کو دیکھ کر خوشگوار حیرت ہوتی ہے کہ اپنی غزلوں میں وہ روایت کو نہایت چابکدستی کے ساتھ نبھاتے ہیں اور شاعرانہ نزاکتوں کا خیال بھی رکھتے ہیں ۔

          ؂       کس دریچے سے چلی آتی ہے ، معلوم نہیں     ایک آواز ـ، کہ مجھ سے لیے جائے مجھ کو
          ؂       اداسیوں کے زمانے بکھرتے جاتے ہیں         اکیلی شاخ سے پتے اُترتے جاتے ہیں
          ؂       تجھ سے بچھڑ کر یوں تو روئے کتنی بار                آج ترے ملنے پر آنکھ بھر آئی ہے
          ؂       رستہ دیکھ کے چلنے والے گرتے ہیں                    دوڑنے والوں نے کم ٹھوکر کھائی ہے
          ؂       مری غزل مری رسوائیوں کا باعث تھی         یہ خامشی بھی نہ موضوع گفتگو ہوجائے
          ؂       غم حد سے گزرتا ہے گزرنے نہیں دیتے        جینے کے بہانے ہیں کہ مرنے نہیں دیتے
          ؂       جسے چپُ رہ کے میں نے پالیا تھا               اسے آواز دے کر کھو گیا ہوں
          ؂       بس اتنا اِذنِ تکلم،یہ کہہ کے مر جاؤں            لے دیکھ ، میں تو تری آرزو میں زندہ ہوں
          نذیر اشک کی شاعری میں مصنوعی پن نام کو نہیں ہے اور نہ ہی ان کی شاعری میں سستی جذباتیت ملتی ہے ،وہ ثقافت ، اخلاق اور آداب کے دائرے سے باہر نہیں نکلتے ان کی شاعری میں وطن کا سوز اور اپنی مٹی سے محبت کا حوالہ ہر جگہ ملتا ہے ۔
          اس کتاب کے آخر میں ایک صحت نامہ شامل کیا گیا ہے جس میں کتاب میں کتابت کے اغلاط کی نشاندہی کی گئی ہے اور وجہ اغلاط بھی بتائی گئی ہے ۔ جو آج کل کی کتابوں میں مفقود ہوتی جارہی ہے ۔ اس کتاب کے مطالعہ سے یہ بات بھی عیان ہوتی ہے کہ ڈیرہ کی سرزمین میں اردو شاعری کی روایت پرانی بھی ہے اور بے حد توانا بھی، اس لیے غلام محمد قاصر جیسے شاعر اس خطہ سے اٹھے اور ان کے ساتھ ساتھ نذیر اشک اور دیگر شعرا ء نے بھی شہرت پائی ، نذیر اشک کی شہرت اس کتاب کے مطالعہ بہت بہتر ہوجائے گی ۔

اوپر جائیں  |   پرنٹ کیجئےِ
انگریزی ورژن ای میل چیک کریں مرکزی صحفہ پرنٹ پسندیدہ سائٹ بنائیں رابطہ کیجئے www.shahzadahmad.com www.shahzadahmad.com