نام کتاب:        جھیل جھیل اداسی               مصنف: شبہ طراز
سال اشاعت: فروری ۲۰۰۲؁ء                 صفحات: ۱۴۴ قیمت:۲۰۰ روپے
پبلشر : تجدید اشاعت گھر ،لاہور۔ اسلام آباد     تبصرہ :        ڈاکٹربادشاہ منیر بخاری

          زیر تبصرہ کتاب شبہ طرازکی نثری نظموں کا مجموعہ ہے، کتاب خوبصورت سرورق کے ساتھ چھپی ہے ۔ساٹھ اور ستر کی دھائی میں اردو جو شاعری ہوئی اس نے اردو شاعری کے مزاج کو قدرے بدل کر رکھا دیا ہے ، ایک طرف تو اس دور میں فیض ،فراز،احمد ندیم قاسمی کی شاعری ہے اور دوسری طرف نثری نظموں کی شاعری اول الذکر نے اردو شاعری کی روایت کو آگے بڑھایا اور موخرالذکر نے اردو شاعری کی روایت سے کھلی بغاوت کی ۔ اس بغاوت کے نقصانات بھی ہیں مگر اس کی افادیت بھی مسلم ہے۔ نثری نظم نے اردو شاعری کو ایک نیا آہنگ اور وسعت دی ۔بیشتر لوگ نثری نظم کو ابھی تک سمجھ نہیں پائے اس لیے جو ان کی سمجھ میں آتا ہے لکھ ڈالتے ہیں ،مگر جو شعراء اس کی فنی نزاکتوں کو پہچانتے ہیں ان کی نثری نظمیں پابند نظموں سے کہیں زیادہ پُر اثر اور دلکش ہیں ۔ شبہ طراز کا شمار بھی دوسرے قبیل کی شاعرات میں ہوتا ہے ۔
          نثری نظم لکھنے کے لیے حساس ہونا بے حد ضروری ہے ، اس لیے کہ نثری نظم میں شاعر ان محسوسات کو بیان کرتا ہے جو اس کے قلب و ذہن کے کشمکش سے بنتے اور بگڑتے رہتے ہیں ،عورت کے قلب و ذہن میں یہ سلسلہ مردوں کی نسبت کہیں زیادہ اور دیرپا ہوتا ہے ۔ اس کا احسا س ہمیں زیر تبصرہ کتاب پڑھ کر ہوتا ہے ۔ اس کتاب میں شامل نظمیں ذاتی ، شخصی اور قلبی واردات کا نتیجہ ہیں اس لیے ہم نظمیں پڑھتے ہوئے خود کو شاعرہ کی جگہ محسوس کرتے ہیں ، نثری نظم کی سب سے بڑی کامیابی ہی یہی ہے کہ وہ آپ کو اپنے ماحول سے نکال کر نظم کے ماحول میں پہنچا دے ۔
                   آدھی نیند کی دُعا
                   مجھے سونے کی چوڑیوں
                   اور
                   جھمکوں کی قید سے
                   آزاد کردو !
                   مجھے ۔۔۔آج
                   پوری نیند سونا ہے !! 
          شبہ طراز کی نثری نظمیں ، ہائیکو،معرا اور پابند نظمیں ان کے گہرے احساسات کی مظہر ہیں ،ان کی نظموں میں ‘‘لب خاموش و قلم متحرک’’والا معاملہ ہے ۔ ہماری نئی نسل صرف گل و بلبل کی سوچ نہیں رکھتی وہ دنیا کے بدلتے حالات اور خصوصاً انسانی ذہن کے شکست و ریخت کے مسلسل عمل سے گزر بھی رہی ہے اور ان تبدیلیوں کو قبول بھی کررہی ہے اس لیے ان کے ہا ں کہنے کو بہت کچھ ہے ، زیر تبصرہ کتاب میں روایت کے علاوہ بہت کچھ نیا بھی ہے ، جو حقیقت ہے مگر اس کا فنکارانہ اظہار ہوا ہے ۔اسی فنکارانہ اظہار کی ایک اچھی مثال شبہ طراز کی تین نظموں ‘‘ عنوان نظم تلاش کرتا ہے ’’ ‘‘ ایک چپ کا خوف’’ اور‘‘ خواہش کے زندہ ہونے سے پہلے ’’ ہیں جن میں انہوں نے اپنی والدہ عذرا اصغر کے تینوں افسانوی مجموعوں کے افسانوں کے عنوانات کی ترتیب بدل کر تخلیق کی ہیں ۔ البتہ افسانوں کے عنوان بریکٹ میں دئیے ہیں ، یہ تجربہ بہت حدتک کامیاب ہے اور مفہوم کا سفر کہیں بھی منقطع نہیں ہوتا اور ابلاغ ہوتا جاتا ہے بلکہ نظمیں پڑھنے کے بعد انسان بہت کچھ سوچتا بھی ہے ۔
          کتاب خوبصورت تجریدی خاکوں سے بھی مزین ہے جس سے فکری معنویت میں اضافہ ہوتا ہے ۔کتاب میں مختصر نظمیں بے حد خوبصورت اور پُر اثر ہیں ۔
          ہاتھوں میں دھوکہ رہتا ہے
          آنکھوں میں وعدے ہنستے ہیں
          کیساروپ نگر ہے ، دیکھو
          کیسے لوگ یہاں بستے ہیں
                                      سرمایہ
                   ‘‘جان ۔۔۔مجھے جلدی جانا ہے
                   جلدی میں ملنے آئی تھی ۔۔۔۔
                   گھر میں کہنا بھول گئی ہوں
                   میری کاپی کوئی نہ کھولے
                   اس میں میرے دکھ رکھے ہیں !’’

اوپر جائیں  |   پرنٹ کیجئےِ
انگریزی ورژن ای میل چیک کریں مرکزی صحفہ پرنٹ پسندیدہ سائٹ بنائیں رابطہ کیجئے www.shahzadahmad.com www.shahzadahmad.com