کتاب کا نام:

محبت مری سرشت میں ہے

 مصنف :

غلام احمد شاد   

سال اشاعت:

۲۰۰۸

صفحات:

۱۹۵

قیمت:

۲۰۰روپے

ناشر:

تخلیق انٹرنیشنل،پاکستان پشاور

تبصرہ :

بادشاہ منیربخاری

زیرتبصرہ کتاب "محبت مری سرشت میں ہے" پشاور سے تعلق رکھنے والے شاعر غلام احمد شاد کا پہلا مجموعہ کلام ہے، غلام احمد شاد شعبہ درس و تدریس سے وابستہ رہے ہیں، صوبہ سرحد کے شعری فضاء میں ان کانام نیانہیں ہے، وہ شہر کے مشاعروں اور تنقیدی مجلسوں میں شریک ہوتے رہے ہیں، ان کی شاعری میں کوئی ایسا پہلو نہیں ہے جس میں انہوں نے روایت سے ہٹ کر یا پھر کوئی شاندار تجربہ کیا ہے لیکن ان کی شاعری روایت سے لگاؤ، حرف و صورت میں رچاؤ اور زبان و بیان میں ٹھہراؤ کی آئینہ دار ضرور ہے۔ ان کی ایک خاصیت یہ بھی ہے کہ انہوں نے غزلوں کےساتھ ساتھ دوہے بھی کہے ہیں، وہ بھی مشرق کے بیشتر شاعروں کی طرح محبت کو موضوع بناتے ہیں اور اسی محبت کے گرد مختلف حوالوں سے چکر کاٹتے رہتے ہیں لیکن ان کی شاعری میں ایک خوبی یہ بھی ہے کہ وہ تخئیل سے زیادہ تجربہ اور مشاہدے کا سہارا لیتے ہیں اس لیے ان کے اشعار ماورائی حد تک نہیں جاتے۔
غلام احمد شاد کی شاعری میں ان کے دوہوں کا ڈکشن مختلف بھی ہے اور دلنشیں بھی۔

جیون ہےاک گورکھ دھندہ دکھ سکھ کااک میل    جیسےبالک کھیل رہاہوکوئی انوکھاکھیل

اک ادھوراسپنا جیون جھوٹی اس کی مایا        پل دوپل کی بات ہےباباڈھل جائےگی چھایا

بھورسمےکی دھوپ سجیلی سانجھ سمےکی چھایا       یون کایہ گورکھ دھنداکوئی سمجھ نہ پایا

دھڑکن دھڑکن ٹلتاجائےمن اورجیون کایہ میل   دونوںبالک کھیل رہےہیں آنکھ مچولی جیساکھیل

پروفیسرغلام احمدشاد کو فارغ بخاری، طاہرفاروقی،جوہرمیر،محسن احسان اور پشاورمیں بسنےوالےسب اچھے شاعروں کی صحبت نصیب رہی ہے، جس کی وجہ ان کا شاعرانہ اسلوب کافی شاندار ہے لیکن ان کی شاعری میں فکر کی وہ پختگی نظر نہیں آتی جس کی ان سے توقع کی جاسکتی ہے، ان کی شاعری میں اگر سقم تلاش کیے جائیں تو سب سے بڑا سقم یہ ہے کہ انہوں نے مشہور و معروف شاعروں کی زمینوں میں ان ہی کی طرز پر شعر کہنے کی کوشش کی ہے جس سے اس کا اصل رنگ اور کمال سامنے نہ آ سکا اور دوسرے بڑے شاعروں کی معروف زمینوں کی بنا پر لوگ ان کی شاعری کو قبول نہ کرپائے، اس سقم کی بنا پر ان کی اچھی خاصی شاعری توجہ حاصل نہیں کر سکی۔
غلام احمد شاد کا شعری مجموعہ پشاور کے شعری فضاء میں ایک خوبصورت اضافہ ہے خصوصاً ان کے دوہے قابل توجہ اور لائق داد ہیں۔
زیرتبصرہ کتاب پیپر بیک پر چھپی ہے، کتاب چھاپنے والے کا غالباً کوئی تجربہ نہیں ہے اس لیے کتاب جاذب نظر بالکل بھی نہیں ہے۔ کتاب کی ابتداء میں محسن احسان کی آراء درج ہیں۔ اور شاعر نے اپنے بارے میں بھی ایک مضمون قلمبند کیا ہے۔
غلام احمد شاد کی طرح بہت سارے شاعر و ادیب ہیں جنہوں نے زندگی کے بیشتر لمحات ادب کے نظر کیے ہیں لیکن اپنی ادبی کاوشوں کومنظر عام پر نہ لا سکے، اگر دوسرے ادیب اور شاعر بھی ان کی دیکھا دیکھی اپنی تخلیقات کو شایع کر لیں تو اس سے صوبہ سرحد کے ادبی فضا میں ایک خوشگوار تبدیلی آئے گی۔

 

اوپر جائیں  |   پرنٹ کیجئےِ
انگریزی ورژن ای میل چیک کریں مرکزی صحفہ پرنٹ پسندیدہ سائٹ بنائیں رابطہ کیجئے www.shahzadahmad.com www.shahzadahmad.com