کتاب کا نام:

پشتوزبان وادب کی مختصر تاریخ

 مصنف:

عبداللھ جان 

سال اشاعت:

۲۰۰۶

صفحات:

۵۳۰

قیمت:

۴۱۷روپے

ناشر:

یونیورسٹی پبلشرز،پشاور

تبصرہ :

بادشاہ منیربخاری

کتاب کے مولف علامھ اقبال اوپن یونیورسٹی کے شعبہ پاکستانی زبانیں میں پشتو کے لیکچرر ہیں۔ پشتو کے ادیب اور شاعر ہیں، ان کا تعلق نوشہرہ کے علاقے خویشکی سے ہے۔ اردو میں یھ ان کی پہلی کتاب ہے، کتاب کی چھپائی دیدہ زیب ہے کتاب کے فلیپ پر اجمل خٹک، ڈاکٹر جمیل جالبی، پریشان خٹک ، پروفیسر فتح محمد ملک، افتخار عارف اور ڈاکٹر انعام الحق جاوید کی آراء درج ہیں۔ کتاب اور مصنف پر ابتداء اور آخری صفحات میں سلیم راز، ڈاکٹر عبدالعزیز ساحر اور ڈاکٹر پرویز مہجور کی آراء بھی درج ہیں۔ پشتو ادب کی اردو میں یہ پہلی تاریخ نہیں ہے۔ تاج سعید کی "پشتوادب کی مختصر تاریخ" اجمل خٹک کی کتاب "پشتوادب ۱۹۴۹"، فقیرحسین ساحر کی "پشتوزبان و ادب پر ایک نظر" "پشتو ادب" )مشمولہ: تاریخ ادبیات مسلمانان پاک و ہند کی تیرھویں جلد ( پروفیسر عبدالروف نوشہروی کی کتاب "پشتوادب ایک تعارف"، رضاہمدانی کی کتاب "پشتوادب" اس سے پہلے اس موضوع پر لکھی گئی ہیں۔ پشتو ادب کا سراغ ہمیں دوسری صدی ہجری سے ملتا ہے اس لیے زیرتبصرہ کتاب پشتوادب کے ۱۲۰۰سوسالہ دورانیہ کے تحریری ادبیات کا احاطہ کرتی ہے، پشتومیں بھی،پشتوتواریخ کی ادبیات لکھی جا چکی ہیں۔ علامہ عبدالحئی حبیبی کی "د پختوادبیاتو تاریخ" صدیق اللھ رشتین "دپختوادب تاریخ"، محمد صدیق روحی کی "دپختوادبیاتو تاریخ" زلمے ہیوادمل کی "دپختوادبیاتو تاریخ" محمدنواز طائر کی کتاب"روھی ادب" شیرافضل بریکوٹی کی کتاب "دپختوشعروادب تاریخ" شہسوارسنگروال نیازی کی کتاب "دپختوادبیاتومعاصرتاریخ"ان میں سے کافی مشہور ہیں۔ عبداللھ جان عابد کی کتاب کو گزشتہ ادبی تاریخی کتابوں کے مقابلے میں دورجدید کے ادبیات کے تذکرے اور چند نئے اصناف کی شمولیت نے فوقیت دی ہے۔ کتاب کو ان ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے۔ ۱۔ پشتوادب کا تاریخی اور لسانی پس منظر ۲۔ پشتوشاعری کا آغاز اور ارتقا ۳۔ پشتولوک شاعری ۴۔ پشتوکی کلاسیکی نثر: آغاز و ارتقا ۵۔ جدید پشتوشاعری ۶۔ جدید پشتوشاعری کے چند اہم تر شعرا ۷۔ ناول ۸۔ افسانہ ۹۔ ڈراما ۱۰۔ سفرنامہ نگاری اور رپورتاڎ نگاری ۱۱۔ خاکہ نگاری اور انشائیہ نگاری ۱۲۔ تذکرہ نویسی ۱۳۔ قواعدنویسی ۱۴۔ لغات نویسی ۱۵۔ ادبی تاریخیں ۱۶۔ صحافت ۱۷۔ تراجم ۱۸۔ تحقیق اور تنقید۔ کتاب کے آخر میں کتابیات دی گئی ہیں جن سے استفادہ کیا گیا ہے۔
کتاب کا اسلوب انتہائی سادہ، سلیس اور دلنشین ہے جیسا کہ ادبی تاریخ نگاری کا اسلوب ہوتا ہے، مصنف اپنے مطالعاتی افادات کی ترسیل اور ابلاغ میں کامیاب رہے ہیں، الگ الگ عنوانات کے تحت بحت کی بنا پر تکرار سے بچا گیا ہے، اور بے تعصب تبصروں نے کتاب کی وقعت بڑھائی ہے۔ چونکہ مختصر تاریخ ہے اس بنا پر مصنف نے جزئیات نگاری سے خود کو بچایا ہے، کتاب کا ہر باب حوالہ جات سے مزین ہے۔ پہلےباب میں پشتونوں کے شجرہ نسب کے حوالے سے زیادہ اختصار کھٹکتا ہے، اور کچھ معتبر کتب اور حوالوں کی کمی بھی محسوس ہوتی ہے لیکن پشتو کے دیگر ادبی تاریخوں کے مقابلے میں زیرتبصرہ کتاب کے تحقیق میں ایک منطقی ترتیب ہے اور اس میں کی گئی تنقید اور تبصرے صحت مند بھی ہیں اور قابل بھروسہ بھی۔ اس مختصر ادبی تاریخ سے پشتوزبان و ادب کے ساتھ ساتھ پشتونوں کی سماجی تہذیبی سیاسی اور تمدنی ارتقاء کا بھی اندازہ ہوتا ہے جو غالباً بہت کم ادبی کتابوں میں نظر آتا ہے۔ کتاب میں جہاں پشتو لکھی گئی قوسین میں اس کا اردو ترجمہ بھی کیا گیا ہے جس سے اردو کے قاری کو اسانی رہتی ہے۔ پشتو ادب کے سب مشہور اور قابل ذکر ادیبوں اور ان کے کام کا تذکرہ کیا گیا ہے، جدید دور کے ادیبوں کے تذکرے میں بھی بخل سے کام نہیں لیا گیا جبکہ اسکے مقابلے میں پشتوادبیات کے دیگر تاریخوں میں جدید نسل کے لکھنے والوں کو ہمیشہ نظرانداز کیا جاتا رہا ہے۔
زیرتبصرہ کتاب پشتوادب کی بے تعصب تاریخ کہلائے گی۔ اس میں کسی بھی گروہ بندی میں پڑے بغیر حقیقی تاریخ نگاری کے اصولوں کو سامنے رکھ کر ادبیات کا جائزہ لیا گیا ہے۔ جس کی داد یقیناً دینی چاہیئے اس لیے کہ ہمارے ہاں اکثر کتابیں صرف اس لیے لکھی گئی ہیں کہ جن کے سہارے کچھ کا قد گھٹایا اور کچھ کا بڑھایا جا سکے۔ اور یہ کام ادبی تاریخوں میں کافی رغبت اور تواتر سے کیا گیا ہے۔ اس لیے ہمارے ہاں تاریخ اور خصوصاً ادبی تاریخ نویسی متنازعہ رہی ہے۔ مصنف نے زیر تبصرہ کتاب میں اس خامی سے نہ صرف خود کو بچایا ہے بلکہ سب ادیبوں کے ساتھ انصاف بھی کیا ہے۔ کتاب کا اسلوب سادہ اور سلیس ہے، جس سے قاری کو پڑھتے ہوئے بے حد آسانی رہتی ہے۔ ادبی کتابوں میں رنگین اسلوب کچھ زیادہ کامیاب بھی نہیں رہتا جس کی زندہ مثال محمد حسین آزاد کی کتاب "آب حیات" کی دی جا سکتی ہے۔ ادبی تاریخ نگاری کے لیے موزون اسلوب حالی کا ہو سکتا ہے۔ عابداللھ جان عابد چونکہ پشتو کے ادیب ہیں۔ اس لیے ان کی سادہ اور رواں اردو نثر ان کو بہت سارے مشکلات سے صاف بچا لے گئی ہے۔
کتاب کے ہر باب کے اختتام پر حوالے درج کیے گئے ہیں جن سے تحقیق کرنے والوں کو مزیدمعلومات ڈھونڈنے میں سہولت رہتی ہے۔ اور کتاب میں نظم و نثر کو یکساں اہمیت دی گئی ہے جبکہ اس سے پہلے کے پشتو ادبی تاریخوں میں شاعری چھائی ہوئی ہے۔ کتاب پشاور میں بکس شاپس پر دستیاب ہے۔

 

اوپر جائیں  |   پرنٹ کیجئےِ
انگریزی ورژن ای میل چیک کریں مرکزی صحفہ پرنٹ پسندیدہ سائٹ بنائیں رابطہ کیجئے www.shahzadahmad.com www.shahzadahmad.com