کتاب کا نام:

شامیں فریب دیتی ہیں 

 مصنف:

ناصرعلی سید 

سال اشاعت:

۲۰۰۷

صفحات:

۴۱۶

قیمت:

۴۵۰روپے

ناشر:

شعیب سنزپبلشرزاینڈبک سیلرز،منگورہ،سوات

تبصرہ :

بادشاہ منیربخاری

"شامیں فریب دیتی ہیں" ناصر علی سید کا پہلا شاعری مجموعہ ہے، ناصرعلی سید محمکہ تعلیم سے وابستہ ہیں اور پشاورکی ادبی محفلوں کے روح رواں ہیں، مجلسی طبیعت کے مالک ناصرعلی سید افسانہ نگاری، ڈرامہ نگاری، کالم نگاری کے ساتھ ساتھ شاعری بھی کرتے ہیں۔ ان کا زیرتبصرشعری مجموعہ انتہائی خوبصورت گیٹ اپ میں چھپا ہے جس سے کتاب پہلی نظر میں ہی بھا جاتی ہے۔ اس شعری مجموعے میں غزلیں، نظمیں، ہائیکو، گیت اور اردو ٹپے شامل ہیں، کتاب میں خاطر غزنوی، سجاد بابر، حسام حر، محسن احسان، افضل حسین بخاری اور عتیق صدیقی کی آراء موجود ہیں۔ جن میں حسام حر کی رائے سے اختلاف بھی کیا جاسکتا ہے یا ان کی رائے ان کی شاعرانہ مزاج بھی قرار دیا جا سکتا ہے۔ ناصرعلی سید کی شاعری میں ان کا درون بولتا ہے ان کی شعروں میں زیادہ گہرائی نظر نہیں آتی لیکن ہر شعر ان کے شب وروز کی گیرائی کو سمیٹ کر ہمارے سامنے رکھ دیتا ہے اس لیے ان کا ہر شعر سچ معلوم ہوتا ہے شاید ان کی شاعری ان تجربات کا اظہار ہے جو انہوں نے عمر کی گھٹڑی میں سمیٹے ہیں۔

بھری محفل میں تنہا ہو گیا ہوں
مجھے تیری کمی مہنگی پڑی ہے
حسینوں سے مرے صاحب سلامت
مجھے مہنگی، بڑی مہنگی پڑی ہے

ان کی شاعری میںروایتی تصورات اور مسلمہ اقدار سے انحراف نہیں ملتا وہ ذاتی تجربات سے فنی امکانات تک کا سفر طے کر رہے ہیں، ان کی شاعری میں صورت گری زیادہ ہے۔ ان کے شعری رویے اپنے عصر سے مربوط ہیں، بہت کم شاعروں کی شاعری کو ہم نے ان کی شخصیت کا اظہار کہہ سکتے ہیں ناصرعلی سید ان شاعروں میں سے ایک ہیں جن کی ساری شاعری ان کی شخصیت کی غمازی کرتی ہے، ان کے شعروں میں کسی اور تلاش کرناایک کار بے مصرف ہے، وہ نرگسیت پسند ہیں یا نہیں لیکن اپنے آپ سے بے حد محبت کرتے ہیں اپنی زندگی کو اپنی ہی نظر سے دیکھنے اور گزارنے کی سعی اور کوششوں میں کوشاں نظر آتے ہیں اور ان کی یہی سعی ان کی شاعری میں بھی نظر آتی ہے۔ ان کی مجلسی طبیعت نے انہیں بذلہ سنج تو بنا دیا لیکن شاعری میں وہ اپنے ذات کی حصار میں قید نظر آتے ہیں یہی وجہ ہے کہ وہ صرف اپنے لیے شاعری کرتے ہیں ان کی زیر تبصرہ مجموعہ میں محور و مرکز ان کی اپنی منفرد شخصیت ہی ہے۔ ان کی شاعری میں پوئٹک ٹرتھ سے زیادہ ٹرتھ کی کارفرمائی ہے۔

بچھڑنے والے کو کیا صدائیں دیتا ہوں
میں روز و شب اسے ناصر دعائیں دیتا ہوں
کبھی تو خود سے کسی بات پر خفا ہو کر
میں تیرے نام پہ خود کو سزائیں دیتا ہوں

ناصرعلی سید، نذیرتبسم، عزیزاعجاز، سجادبابرکا ہم عصر ہے ان کے سارے ہم عصروں کی شاعری کے کئی مجموعے آئے لیکن دیر آئد درست آئد کے مصداق آخر کار ان کا مجموعہ کلام بھی شایع ہو ہی گیا۔ ان کی غزلوں میں مکالمے کا رنگ کافی نمایاں ہے شائد اس کی وجہ یہ رہی ہو کہ وہ ڈرامہ نگار یا عمر بھر ادبی محفلوں میں بیٹھتا اور مخاطب ہوتا رہا ہے،لیکن ان کا مکالمہ جب شعروں کا روپ دھارتا ہے تو زیادہ دلنشیں ہو جاتا ہے۔ "شامیں فریب دیتی ہیں"میں ڈائیلاگ بھی ہے اور مونولاگ بھی جہاں جہاں مونولاگ کا سہارا لیتے ہیں وہاں وہاں ان کی شاعری زیادہ سچی اور اپنی قربت کا احساس دلا دیتی ہے۔ یہی سلسلہ ان کی نظموں میں بھی نہیں ٹوٹا، ان کی نظمیں رومانوی تو ضرور ہیں لیکن ان کی نظموں کی خمیر میں کہیں کہیں ہمیں آفاقی دکھوں اور حسرتوں کا سراغ بھی ملتا ہے اس لیے ان کی نظمیں صرف ان کےخیالات کے ابلاغ کا ذریعہ ہی نہیں ان کے کتھارسس کا بھترین وسیلہ بھی ہیں۔
کہ میں تو اس قدر ہی جانتا ہوں اور اتنی ہے خبر مجھ کو
محبت موسموں اور وقت کی ترتیب سے آزاد ہوتی ہے
بہت برباد کرتی ہے
تو خود آباد ہوتی ہے
دنیا میں ہر انسان کی طرح ناصر کی زندگی میں بھی لفظ "کاش" کی بڑی اہمیت رہی ہے اپنی شاعری میں ان خوہشوں کا تذکرہ وہ باربارکرتے ہیں۔ ان کا اظہار ان کی شاعری کو منفرد بنا دیتا ہے جو ان کو اپنے ہم عصروں میں انفرادیت عطاکرتی ہے۔

کسی کالر نہ بالوں میں سجا ہوں
میں خودروپھول جنگل میں اُگا ہوں

 

تمہارے واسطے کیا کرسکوں گا
میں اپنے واسطے کیا کرسکا ہوں

اس مجموعے کے چھپنے سے پشاور کی شعری فضا پر ایک خوشگوار اثر پڑا ہے، اس لیے کہ ناصرعلی سید کو مشاعروں میں بہت سوں نے سنا تھا لیکن ان کے شاعری کے حقیقی رنگ ان کے اس مجموعے کے چھپنے سے منظرعام پر آئے ہیں۔
کتاب میں جو ٹپے شامل کیے گئے ہیں وہ پشتو ٹپہ کے مروجہ طرز پر نہیں ہیں، پنجابی میں بھی ہے لیکن یہ طرز پنجابی کی بھی نہیں ہے۔ اس صنف کو اس سے پہلے بھی شاعروں نے اردو میں برتنے کی کوشش کی ہے لیکن جس طرح انگریزی میں غزل نہیں کہی جا سکتی اس طرح اردو میںٹپہ کہنا بھی بہت مشکل بات ہے۔
اس دور انحطاط میں ناصرعلی سید جیسے لوگوں کا دم غنیمت ہے جنہوں نے مکالمہ کو زندہ رکھا ہوا ہے، ان کی مجلسیں شہر کی مادی کثافتوں سے دور خیال و خرد کی آبیاری میں مصروف ہوتی ہیں اگر چہ ہماری بد قسمتی یہ ہے کہ ان محفلوں میں بہت کم لوگ شرکت کرتے ہیں، لیکن یہ چند لوگ بھی غنیمت ہیں، ڈاکٹر نذیر تبسم، مشتاق شباب، خاطر غزنوی، عزیزاعجاز، اسحاق وردگ اور اویس قرنی وہ چند نام ہیں جو ادبی محفلوں کو سجاتے ہیں یقیناً ان کے دم قدم سے ادب کی زمین بانجھ نہیں ہوئی، ناصرعلی سید سے سب کو یہی گلہ تھا کہ عمر ادبی محفلوں میں صرف کرنے والا شاعر کیوں بے کتاب ہے یہ گلہ اب یقیناً نہیں رہےگا مگر ناصر کا یہ کہنا بھی بجا ہے کہ

شعرہونٹوں پرلرزتا ہے ٹھٹھک جاتا ہے
کیسے اس شہرميں کوئی ہوغزل خواں ناصر

یوسف رجا چشتی کے بقول یہ ناصرعلی سید پر فٹ بیٹھتا ہے۔

نکتہ داں، نکتہ طراز،نکتہ سنج و نکتہ فہم
شان بزم و جان بزم وروح بزم و مرد بزم

اس شعری مجموعے سے پشاور کے شعری فضا پر یقیناً ایک خوشگوار اثر پڑے گا اور اس ضمن میں ہم عصروں کے ساتھ ان کے شعری سفر میں ہمرکابی کو بھی تقویت ملے گی۔

نجانے اگلی گھڑی کیا سے کیا بن جاؤں
ابھی تو چاک پہ ہوں دستِ کوزہ گر میں ہوں
میں اپنے فکر کی تجسیم کس طرح سے کروں
بریدہ دست ہوں اور شہر بے ہنر میں ہوں

 

اوپر جائیں  |   پرنٹ کیجئےِ
انگریزی ورژن ای میل چیک کریں مرکزی صحفہ پرنٹ پسندیدہ سائٹ بنائیں رابطہ کیجئے www.shahzadahmad.com www.shahzadahmad.com