نام کتاب:        سائبان شیشے کا                  مصنف:         پروفیسر سورج نرائن
سال اشاعت: ۲۰۰۹؁ء                 صفحات:۲۳۱  قیمت: ۳۰۰ روپے
پبلشر: مصنف خود                         تبصرہ : ڈاکٹربادشاہ منیر بخاری

          زیر تبصرہ کتاب سورج نرائن کا اٹھارواں شعری مجموعہ کلام ہے ،ان کے سارے مجموعہ کلام ان سے عقیدت رکھنے والے ان کے مداحوں نے اپنے خرچے پر ان کے چھاپے ہیں ،سورج نرائن بنیادی طور پر ایک شاعر ہیں ،کوہاٹ میں رہنے والا یہ سیدھا سادہ سا شخص قدیم زمانے کے شعراء کی طرح شعر کہتا ہے اور عاجزی دکھاتا ہے ،
          زیر تبصرہ کتاب میں ایک نعتﷺ،۴۳ نظمیں اور ۱۲۰ غزلیں شامل کی گئی ہیں۔خوبصورت ٹائٹل میں چھی یہ کتاب اپنے معیاری شعروں کی وجہ سے بھی خوبصورت ہے ،سورج نرائن کو وہ مقام نہیں ملا جو ان کا حق تھا اس کی بنیادی وجہ ہمارے معاشرے اور خصوصاً ہمارے شعراء میں پایا جانا والا تعصب کا مادہ ہے ،شعراء میں ایک دوسرے کو برداشت کرنے کا مادہ تو ہمیشہ سے نہیں تھا مگر اس زمانے میں کوہاٹ اور صوبہ سرحد کے دوسرے شعراء صرف سورج نرائن کو برداشت نہیں کرپارہے ہیں جس کی ایک وجہ سورج نرائن کی شاعری ہے اور بھی کئی وجوہات ہوسکتی ہیں ،ان کے اس زیر تبصرہ کتاب کچھ اشعار ایسے ہیں جو وقعتاً دل میں اتر جاتے ہیں۔
          ؂       بے سبب کب خوف کا منظر کھُلا                چھوڑ آیا تھا میں اپنا گھر کھلا
                   کروٹیں اس ایک لمحے کی نہ پوچھ             تھان کی صورت وہ ہاتھوں پر کھلا
          ؂       اس ریت کے طوفان کو آنگن سے نکالو         گھر کے درو دیوار کو الجھن سے نکالو
                   جو عہد گزشتہ کی عداوت کو بدل دے           ایسا نیا رشتہ کوئی دشمن سے نکالو
          ؂       سنا ہے سبز زمینوں کے ہونٹ سوکھ گئے      اسی لیے تو دعائیں کسان مانگتا ہے
                   عدالتوں میں جمے گی نہ منصفی تیری                   تو ہر گواہ سے سچا بیان مانگتا ہے
          ؂       پھول پر یہ شعر کس نے لکھ دیا                  کس کی بھیگی آنکھ شاعر ہوگئی
          زیر تبصرہ کتاب میں شاعر کی شاعری صرف گل و بلبل تک محیط نہیں ہے اسے اپنے حال اور حال کی کم مائیگی کا شدید احساس بھی ہے اور معاشرے میں بڑھنے والی بے سکونی اور بے قدری کا احسا س بھی اسے ستا رہا ہے ،اس کی نظموں میں شدت سے معاشرتی رویوں کا تذکرہ ہے اس معاشرہ کا تذکرہ جس نے اپنی شناخت کھودی ہے ،جہاں قدریں گھٹ رہی ہیں جہاں اقرباء پروری بڑھ رہی ہے ،جہاں سرمایہ دار صرف لوگوں کی قوت ہی نہیں خریدتا بلکہ لوگوں کے روحوں پر قابض ہوجاتا ہے ۔ان کی شاعری میں اپنی مٹی سے محبت اور اپنی پہچان کے گم ہونے کا خوف بہت واضح ہے ،پھر وہ صرف معاشرے سے شاکی نہیں ہے بلکہ اپنے آپ سے بھی ناخوش ہے کہ وہ خود بھی کچھ سعی مسلسل نہیں کرسکا ۔سورج نرائن کی شاعری میں کلاسک کی کچھ روایات ملتی ہیں جو یقیناً غزل کی پہچان بھی ہیں اور یہی کچھ خصوصیات اسے دوسرے شاعروں سے ممتاز کردیتی ہیں ۔
          زیر تبصرہ کتاب میں شاعری عمدہ ہے ہی لیکن ساتھ ہی ساتھ شاعر کی نرم اور شاعرانہ خیالات ایک جمالیاتی خوبصورتی کو جنم دیتی ہے جس سے پڑھنے والے کو شعروں میں بیان کردہ زمانے کی تلخ حالات کو گوارہ کرنے کا حوصلہ مل جاتا ہے ۔ہمارے معاشرے میں سورج نرائن جیسے صاحب فن کی قدر نہیں ہے اس لیے ان کی بیشتر کتابیں یورپ اور امریکہ میں بسنے والے فن سے محبت رکھنے والے لوگوں نے شائع کی ہیں ۔

اوپر جائیں  |   پرنٹ کیجئےِ
انگریزی ورژن ای میل چیک کریں مرکزی صحفہ پرنٹ پسندیدہ سائٹ بنائیں رابطہ کیجئے www.shahzadahmad.com www.shahzadahmad.com