کتاب کا نام:

شعبہ اردوکی تاریخ اور خدمات 

 مصنف:

محمدوارث خان 

سال اشاعت:

مارچ ۲۰۰۷

صفحات:

۲۱۱

قیمت:

۲۰۰روپے

ناشر:

یونیورسٹی پبلشرز

تبصرہ :

بادشاہ منیربخاری

کتاب کے مصنف شعبہ تدریس سے وابستہ ہیں۔ اور یہ کتاب ان کے ایم فل کا تھیسس ہے جس پر انہیں شعبہ اردو جامعہ پشاور سے ڈگری دی جا چکی ہے۔ کتاب کے عنوان ہی سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ کتاب تحقیقی مواد پرمشتمل ہے۔ کتاب میں ڈاکٹر صابرکلوروی،ڈاکٹرظہوراحمداعوان اور سہیل احمد کے تاثرات شامل کیے گئے ہیں۔ کتاب کے بیک فلیپ پرڈاکٹرروبینہ شاہین، ڈاکٹرنذیرتبسم اور ڈاکٹر گوہرنوشاہی کی آراء درج ہیں۔
شعبہ اردو ۱۹۵۶میں بنا اور ۲۰۰۶ تک یعنی ۵۰برسوں میں اردو ادب و زبان کے لیے اس کی خدمات فراموش نہیں کی جاسکتیں۔ مصنف نے ان پچاس سالوں میں شعبہ کی تاریخ اور خدمات کو تحقیقی اصولوں کی روشنی میں ترتیب دیا ہے۔ کتاب سات ابواب پر مشتمل ہے۔ پہلے باب میں شعبہ اردو کی تاریخ، دوسرے باب میں شعبہ اردو کے اساتذہ، تیسرے باب میں شعبہ اردو کے طلباء کی مکمل فہرست دی گئی ہے، چوتھے باب میں شعبہ اردو کی ادبی سرگرمیوں پر بات کی گئی ہے، پانچویں باب میں شعبہ اردو کے ادبی مجلے خیابان کے چودہ شماروں پر تنقیدی نظر ڈالی گئی ہے، چھٹے باب میں شعبہ اردو میں ۲۰۰۶ تک کی گئی ادبی اور لسانی تحقیق پر ایک نظر ڈالی گئی ہے، ساتویں اور آخری باب میں شعبہ اردو کے نصاب کا تدریجی ارتقاء دکھایاگیا ہے اور جدید نصاب مکمل شامل کیاگیا ہے۔ کتاب کے آخر میں مآخذومصادرکے عنوان سے ان تمام کتب اور ذرائع کو جمع کیا گیا ہے جن سے محقق نے دوران تحقیق مدد لی۔
کتاب تحقیقی ہے اس لیے اس کا اسلوب بھی سادہ اور سپاٹ ہے۔ جس سے موضوع صراحت کے ساتھ قاری کی سمجھ میں آ جاتا ہے۔ شعبہ اردو میں درس و تدریس کے علاوہ مختلف موضوعات پر سیمینار، مشاعرے، مذاکرے، مباحثے اور کئی مشہورادیبوں اور اہل علم کے ساتھ شامیں منائیں گئیں، اس کی سلور اور گولڈن جوبلی کی تقریبات منعقد کی گئیں، یہاں سے رسالے جاری کیے گئے، کتابیں لکھی گئیں غرض بے شمار ایسے گوشے تھے جو عام قاری کے ذہن سے اوجھل تھے، مصنف نے ان پر روشنی ڈالی ہے اور تاریخ کے دھارے کی درستگی کے لیے انہیں یکجا کیا ہے۔ جس سے صوبہ سرحد کے ایک ادارے کی پچاس سالہ کارکردگی سامنے آتی ہے۔ ہمارے ملک میں بے شمار ایسے ادارے ہیں جن کی خدمات ہیں لیکن مورخ وقت نے ان خدمات کو تاریخ کے صفحات میں قید نہیں کیا اس لیے یہ خدمات نئی نسل کے سامنے نہیں آ رہی ہیں۔ شعبہ اردو کی طرح ان سب اداروں پر بھی کام ہونا چاہیئے تا کہ کل کی نئی نسل کو تاریخ کا تعین کرنے میں کوئی دشواری نہ ہو۔ اس سے پہلے فرنٹیئر کالج فار ویمن پشاور جو کہ اب یونیورسٹی بن چکی ہے پر مشرف مبشر کی اس موضوع پر ایک کتاب "سرگزشت فرنٹیئر کالج" چھپ چکی ہے۔
کتاب کے آخر میں چند یادگار تصویریں بھی دی گئیں ہیں۔ جنہیںدیکھ کر یقیناً کچھ لوگوں کے ذہنوں میں ماضی کی کچھ خوشگوار دریچے وا ہوں گے۔ کتاب میں شعبہ کی تاریخ کو نہایت خوبصورتی اور صراحت کے ساتھ پیش کیاگیا ہے۔ کتاب میں شعبہ کے نامور طلباءجنہوں نے بعد میں ادب اور زندگی کے مختلف شعبوں میں اپنا ایک مقام بنایا کا الگ تذکرہ ہے۔ احمد فراز کی ایک مثال ان میں سے پیش کی جا سکتی ہے۔
کتاب میں شعبہ اردو سے ہونے والے ایم اے، ایم فل اور پی ایچ ڈی کے مقالوں کی فہرست و جزوی تفصیل بھی دی گئی ہے جس سے محققین کو کافی سہولت رہے گی۔ اس تاریخ سے شعبہ اردو جامعہ پشاور کی کارکردگی کے تسلسل کا بھی اندازہ ہوتا ہے اور تعلیمی،تحقیقی اور انتظامی حوالے سے اس کی ترقی کی رفتارکا جائزہ بھی سامنے آگیا ہے۔
چونکہ شعبہ اردو کی تاریخ تحقیقی مقالے کی صورت میں لکھی گئی ہے اس لیے اس میں ہر باب کے آخر میں حوالے موجود ہیں جن میں بہت سارے حوالے خذف کیے جاسکتے تھے جس سے کتاب کی خوبصورتی میں اضافہ ہوجاتا اور عام قاری کو ان حوالوں سے کوئی خاص سروکار نہیں رہتا اور چونکہ یہ حوالے امتحانی ضروریات کے پیش نظر دی گئی ہیں اس لیے کتاب میں صرف خاص خاص حوالے ہی شامل کیے جانے چاہیئے تھے۔
کتاب صوبہ سرحد میں اس موضوع پر لکھی گئی کتابوں میں ایک اچھا اور خوبصورت اضافہ ہے۔ یقیناً اس طرح کی اور کتابیں بھی منظر عام پر آئیں گی۔

 

اوپر جائیں  |   پرنٹ کیجئےِ
انگریزی ورژن ای میل چیک کریں مرکزی صحفہ پرنٹ پسندیدہ سائٹ بنائیں رابطہ کیجئے www.shahzadahmad.com www.shahzadahmad.com