نام کتاب:        سرِ دلبراں                         مصنف: ڈاکٹر ظہور احمد اعوان
سال اشاعت: ۲۰۰۳؁ء؁                      صفحات:۴۵۶  قیمت:۴۵۰
پبلشر: الوقار پبلی کیشنز، لاہور                             تبصرہ :        ڈاکٹربادشاہ منیر بخاری

          ڈاکٹر ظہور احمد اعوان ، سفر نامہ نگار، خاکہ نگار ، محقق، کالم نگار اور معروف نقاد ہیں ، ان کی ساٹھ سے زائد کتابیں چھپ چکی ہیں اور ہزاروں کالم اخباروں کی زینت بنے ہیں ، وہ ۳۵ برس تک درس و تدریس سے وابستہ رہے اورانہوں نے کئی مضامین میں اعلیٰ تعلیم حاصل کی ۔ وہ اس خطے کے بیسار نویس ہیں ۔ اس لیے کہ انہوں نے باقاعدہ لکھنے کا آغاز ۴۶ برس کی عمر میں کیا ۔ اور پھر بس لکھتے گئے ، انہیں نہ تو زمانے سے ستائش کی تمنا تھی اور نہ وہ اس کے متقاضی تھے وہ بس صرف قلم کا قرض چکاتے رہے ۔ زیر تبصرہ کتاب خاکوں ، باتوں ، ملاقاتوں اور ان کی یادوں کا مجموعہ ہے ۔خوبصورت گیٹ آپ میں چھپی یہ ضغیم کتاب معیار کے حوالے سے بھی بہت عمدہ کتاب ہے
          اس کتاب میں ادیب اور شاعر کے عنوان سے احمد ندیم قاسمی ، جمیل الدین عالی، فرمان فتح پوری ، معین الرحمن ، سحر انصاری ، شوکت واسطی ، لطیف الزمان ، طاہر تونسوی ، تاج سعید ، گلزار، پرویش شاہین ، سلیم راز، قدسیہ قدسی ، ضیاء اﷲ کھوکر اور نذیر اشک،امریکن یورپی و غیر ملکی دوستوں کے عنوان سے افتخار نسیم ، ارشاد صدیقی ، انور خواجہ ، عتیق صدیقی ، ظفر عبا س بخاری ، ڈاکٹر منظور حسین ، ماما علی حسن ، سردار سردول کواترا، ریحانہ قمر، لالی چوہدری ، ڈاکٹر ارشد جاوید ، شیر افضل بریکوٹی۔استاد و رفقائے کار کے عنوان سے ڈاکٹر مظہر علی خان ، ڈاکٹر شمس الدین صدیقی، ڈاکٹر مرتضیٰ اختر جعفری، ڈاکٹر جوہر پراچہ، اعجاز الرحمان ، سحر یوسف زئی ، درشہوار، منور رؤف، صابر کلوروی ، فقیرا خان ، ضیاء الرحمن، نذیر تبسم، روبینہ شاہین ، سہیل احمد ، بادشاہ منیر بخاری، اور صفی اﷲ ۔دوست و جنکار کے عنوان سے ڈاکٹر الف خان ، ڈاکٹر اعجاز حسین ، ممتاز عسکری ، نصراﷲ خٹک ، ظہور الدین خان ، پروفیسر نظیر ، محمد رفیق ، شاہ طہماس، میاں سعید، ڈاکٹر جان ، جلیل پوپلزئی ، ماسٹر عزیز النبی، خواجہ وسیم ، حمید خان ، ایس جی جان عنقا، ڈاکٹر قاسم جان ، ڈاکٹر متین ، مولانا راحت گل ، بشیر احمد ، لالہ فیض ، صادق مغل ، ہمایوں پٹواری ، خورشید ایڈوکیٹ ، ڈاکٹر ندیم شفیق ملک ، ڈاکٹر گردیزی ، ڈاکٹر اے جے خان ، وی ائی پی ، ڈاکٹر رحمان ،گل جی اور آخر میں ایک کمرہ کے عنوان سے خاکے لکھے ہیں ۔
          بقول ڈاکٹر ظہور احمد اعوان کسی کی تعریف کرنے کے لیے بھی ظرف چائیے ، دوسروں کی توصیف کے لیے خود شکستگی اور خود گدازی کے عمل ے گزرنا پڑتا ہے اور ایسا کرنے کی تاب ہر کس و ناکس میں نہیں ہوتی ۔ ان خاکوں میں ایسا نہیں ہے کہ صرف تعریفیں بیان کی گئی ہیں بلکہ ضرورت پڑنے پر ظہور احمد اعوان نے خبر بھی لی ہے مگر بیشتر خاکوں میں صرف مثبت پہلوؤں کو مد نظر رکھا گیا ہے ، وہ شخصیات جن کے ساتھ ظہوراحمد اعوان نے زیادہ عرصہ گزار ا ہے ان کے خاکوں میں ان کا مشاہدہ اور تجربہ بولتا ہے مگر جن اصحاب سے ان کی ایک یا دو ملاقاتیں رہی ہیں وہاں وہ سرسری تذکرہ کرتے ہیں اور ان کی شہرت کو بنیاد بنا کر لکھتے ہیں ۔ ظہور احمد اعوان کے اس سے پہلے بھی خاکوں کے چار مجموعے ،سب دوست ہمارے ، حساب دوستاں ، سیاسی چہرے ، اور چہرہ بہ چہرے شائع ہوچکے ہیں ۔ پچھلی کتابوں کی نسبت ان خاکوں میں ان کا قلم زیادہ پختہ کاری اور مہارت کے ساتھ چلا ہے ۔ اور شخصیت کے ایسے پہلوؤں پر انہوں نے اظہار خیال کیا جو عام لوگوں کی نظروں سے اوجھل ہوتے ہیں ۔
          پاکستان میں بہت زیادہ تعداد میں خاکے لکھے گئے صوبہ خیبر پختونخوا میں بھی فارغ بخاری ،خاطر غزنوی اور رحیم گل نے عمدہ خاکے لکھے ہیں ،زیر تبصرہ کتاب میں ظہوراحمداعوان نے ہر خاکہ کے لیے ایک عنوان بنایا جو خاکہ کی شخصیت کو سامنے رکھ کر بنایا گیا ہے اس عنوان کو پڑھ کر ہی قاری شخصیت کے بارے میں اک رائے قائم کرلیتا ہے ۔
          ان خاکوں میں اک پورے عہد کے چیدہ چیدہ لوگوں کی تاریخ محفوظ ہے ۔ جسے جب بھی پڑھا جائے گا ،لطف سے خالی نہ ہوگا ۔ ظہوراحمد اعوان حقیقتاً اس خطے کے عظیم لکھاری تھے انہوں نے جو تحریریں چھوڑی ہیں وہ ان کو ہمیشہ زندہ رکھیں گی ۔

اوپر جائیں  |   پرنٹ کیجئےِ
انگریزی ورژن ای میل چیک کریں مرکزی صحفہ پرنٹ پسندیدہ سائٹ بنائیں رابطہ کیجئے www.shahzadahmad.com www.shahzadahmad.com