نام کتاب:        صوبہ سرحد میں ادبی صحافت                   مصنف:         عثمان شاہ
سال اشاعت:۲۰۰۷؁ء                  صفحات: ۲۵۰ قیمت:  ۱۵۰ روپے
پبلشر: یونیورسٹی پبلشرز،پشاور                  تبصرہ :        ڈاکٹر بادشاہ منیر بخاری

          زیر تبصرہ کتاب مصنف کے ایم فل کاتحقیقی مقالہ ہے ،کتاب کا انتساب والدہ محترمہ کے نام ہے اور خوبصورت گیٹ آپ میں اچھے کاغذپہ چھاپی گئی ہے۔ یہ کتاب وزارتِ کھیل و ثقافت اور آثار قدیمہ حکومت صوبہ سرحد کے مالی تعاون سے چھاپی گئی ہے ۔اس کتاب میں صوبہ سرحد کی ادبی صحافت کا ۱۸۵۴؁ء سے ۲۰۰۷؁ء تک کا احاطہ کیا گیا ہے ۔کتاب چھے ابواب،حرف شیرین،تقریظ،مقدمہ،مآخذ و مصادر اور دو ضمیموں پر مشتمل ہے ۔کتاب کی ابتداء میں ابوالکیف کیفی سرحدی کا یہ شعر درج ہے
          ؂       وہی اردو ہے جو پہلے سے چلی آئی ہے
                   اہلِ سرحد نے اسے زندۂ جاوید کیا
          حرف شیرین کے عنوان سے مصنف نے اپنے خیالات قلم بند کیے ہیں جبکہ تقاریظ پروفیسر ڈاکٹر ظہور احمد اعوان،پروفیسر ڈاکٹر صابر کلوروی،رحیم اﷲ یوسفزئی اورگوہر الرحمان نوید کی تحریر کردہ ہیں ۔مقدمہ میں مصنف نے صوبہ سرحد کا ادبی و ثقافتی اور بعد میں صحافتی پس منظر واضح کر نے کی کوشش کی اور کتاب کی وجہ تحریر و اشاعت بتانے کی کوشش کی ہے ۔
          یہ کتاب بے حد اہم موضوع پر لکھی گئی ہے ،صوبہ سرحد میں ادبی صحافت کی ایک طویل اور شاندارتاریخ موجود ہے ،ہندوستان کی دیگر خطوں کی طرح سرحد میں بھی اہل ادب نے صحافت کا سہارا لیا اور اپنا پیغام لوگوں تک پہنچایا پھر صوبہ سرحد میں صحافت نے فارغ بخاری ،رضاہمدانی ، تاج سعیداور خاطر غزنوی جیسے معتبر اور بڑے نام پیدا کیے ،صوبہ سرحدمیں ایسے رسائل ،اخبارات اور جرائد شائع ہوئے جو اردو دنیا میں بے حد مقبول ہوئے ،ان رسائل و جرائد نے یہاں جنم لینے والی ادبی تحریکوں کو پروان چڑھایا اور لوگوں کو تفریح طبع کے ساتھ ساتھ علمی اور ادبی ثروت مندی سے روشناس کرایا۔
          زیر تبصرہ کتاب کی ترتیب مقالہ جاتی ہے جسے کتابی ترتیب میں بدلہ جاسکتا تھا جس سے کتاب کی افادیت میں اضافہ ہوسکتا تھا،کتاب کی اچھی بات اس میں بے تعصابانہ اظہار خیال ہے ،جس موضوع پر کتاب لکھی گئی اس میں ایسا طریقہ اظہار رکھنا عموماً مشکل ہوجاتا ہے مگر مصنف نے کمال مہارت کے ساتھ حقیقت کو پیش کیا ہے اور جو تبصرہ بھی کیا ہے بے لاگ اور بے خوف ہوکر کیا ہے جس سے مصنف کی ادبی دیانتداری کا اندازہ ہوجاتا ہے ،کتاب میں صوبہ سرحد کا تعارف بھی کرایا گیا ہے جو کہ بہت مختصر اور کمزور ہے لیکن صوبہ سرحد میں ادبی صحافتی حالات پر تفصیلاً گفتگو کی گئی ہے ۔
          کتاب میں صوبہ سرحد سے چھپنے والے تقریباً تمام مشہور ادبی رسائل و جرائد اور اخبارات کے ادبی اشاعتوں کا تذکرہ کیا گیا ہے ،یہاں تک کے ان مجلوں تک کا ذکر کیا گیا ہے جو صوبہ سرحد کے مختلف سکولوں اور کالجوں سے چھپتے رہے ہیں ،ہمارے سب بڑے ادیب ابتدا میں ان سکولوں اور کالجوں سے چھپنے والوں رسالوں میں لکھتے رہے ،مصنف نے ان رسائل پر اچھی تحقیق کی ہے ۔یہ تحقیق اس لیے بھی ایک مشکل کام تھا کہ اس میں ڈیڑھ سو سال کے دورانیے میں چھپنے والے ہر اس اخبار ،رسالے ،جریدے اور تحریرتک پہنچنے کی سعی کرنی تھی جس میں ادبیت موجود ہو یا وہ ادبی پہچان رکھتا ہو ۔مصنف نے اس سلسلے میں اپنی مقدور بھر کوشش کی ہے ۔چونکہ اس موضوع پر اس سے پہلے کوئی خاص کام نہیں ہوا تھا اس لیے ان کے لیے یقیناً یہ کام کافی مشکل رہا ہوگا مگر جب انہوں نے اس تحقیقی کام کو جمع کرکے اسے تحریری صورت دی ہے اس میں انہوں نے اختصار سے کام لیا ہے ۔
          کتاب ادب اور صحافت کے طالب علموں کے ساتھ ساتھ صوبہ سرحد اور علم سے شغف رکھنے والوں کے لیے ایک اچھا اضافہ ہے ۔

اوپر جائیں  |   پرنٹ کیجئےِ
انگریزی ورژن ای میل چیک کریں مرکزی صحفہ پرنٹ پسندیدہ سائٹ بنائیں رابطہ کیجئے www.shahzadahmad.com www.shahzadahmad.com