نام کتاب:        تم اداس مت ہونا                           مصنف: نذیر تبسم
سال اشاعت: بار سوم اگست ۲۰۰۶؁ء؁                       صفحات: ۱۵۸  قیمت:۱۲۵
پبلشر: سنڈیکیٹ آف رائیٹر پشاور ) پاکستان(             تبصرہ :        ڈاکٹربادشاہ منیر بخاری

          ‘‘ تم اداس مت ہونا’’ نذیر تبسم کا پہلا شعری مجموعہ ہے ، نذیر تبسم میٹھے لہجے کے پیارے شاعر ہیں ، عمر بھر اردو ادب خصوصاً اردو شاعری کی تدریس سے وابستہ رہے ہیں اور عمر کی باقی ساعتیں بھی ادبی نشستوں میں گزر دی ہیں ، اس خطے میں اردو لکھنے والوں کی بہتاب تو نہیں ہے مگر پشاور شہر اس سلسلے میں بہت زرخیز رہا ہے ، اس شہر نے احمد فراز ، فارغ بخاری ، رضا ہمدانی ، خاطر غزنوی ، محسن احسان اور نذیر تبسم جیسے شاعروں کی تربیت کی ،اس شہر میں ادبی نشستوں کا اہتمام روز کا معمول تھا ، نذیر تبسم بھی انہی نشستوں سے ادب کا شوق لے کر اٹھے ، اگرچہ نذیر تبسم نے ڈرامے بھی لکھے مگر وہ ایک مکمل شاعر ہیں ، وہ بسیار نویس بالکل بھی نہیں ہیں ، کم لکھتے ہیں لیکن اچھا لکھتے ہیں ۔ وہ صرف اچھے شعر ہی نہیں کہتے بلکہ اچھا شعر پڑھتے بھی ہیں یہ سلیقہ آج کل کم ہی کسی کو آتا ہے ، نذیر تبسم کو مشاعرے لوٹنے کا فن خوب آتا ہے اور اس وجہ سے اکثر ان کے دوست شعراء ان کے حریف بننے کی ناکام کوششیں کرتے ہیں ۔
          ان کی زیر تبصرہ کتاب سراپا انتخاب ہے ، اس کتاب میں غزلیں ، نظمیں ، قطعات ، اور ہائیکو شامل ہیں ۔ وہ بلاشبہ ایک رومانوی شاعر ہیں مگر عصر حاضر پر بھی ان کی نظر ہے وہ محبوب کے بارے میں سوچتے ہیں ، ہر جگہ محبوب کو تلاش کرتے ہیں اور محبوب کو فتح بھی کرتے ہیں مگر اپنے گردوپیش سے یکسر غافل نہیں رہتے ،مگر وہ ادب کو پروپیگنڈہ بنانے کے بھی قائل نہیں ہیں۔ اس لیے ان کے ہاں نعرہ بازی یا ان کے دور کے دوسرے شعرا کی طرح عصری حالات کے نوحے نہیں ملتے ہاں انہیں حالات کا شکوہ بھی اور ناقداری زمانہ کا دکھ بھی ہے مگر وہ اس دکھ سے محبت کے راستے نکل آتے ہیں اور پھر محبت کی راہ میں سارا سفر کاٹتے رہتے ہیں ، وہ محبت کی راہ میں تھکتے بالکل بھی نہیں ، ہاں ان کے ہمسفر محبت میں ان کے قدموں سے کم ہی قدم ملا کر چل پاتے ہیں ۔
          زیر تبصرہ کتاب میں اردو کی شاعری کا وہ خوبصورت نمونہ موجود ہے جس میں ڈکشن اور پیش کش کا ایک مترنم امتزاج قاری کو پڑھنے کو ملتا ہے اور اس کا تاثر قاری کے ذہن و دل پر تا دیر طاری رہتا ہے ۔
          رت جگوں کے صحرا میں خواب جب اجڑ جائیں تم اداس مت ہونا
          زندگی کے میلے میں ہم اگر بچھڑ جائیں تم اداس مت ہونا
                   اتنی سی بات تھی جسے پر لگ گئے نذیر ؔ
                   میں نے اسے خیالوں میں چوما تھا اور بس
          اچانک تیرے آنے کی خوشی کچھ اور ہوتی ہے
          مجھے بادِ صبا کی مخبری اچھی نہیں لگتی
          دل بھی کتنا سادا ہے آس کی منڈیروں پر
          خود دیے جلاتا ہے خود دیے بجھاتا ہے
                    اس لیے تبسم نے زخم کھا لیے چپ چاپ
                   تیر بھی تمہارے تھے ، بزم بھی تمہاری تھی

          نذیر تبسم کی شاعری روایت اور جدت کا امتزاج ہے مگر ان کی جدت بھی روایت ہی کی کوکھ سے جنم لیتی ہے ،وہ کافی عرصہ اساتذہ کی صحبت میں رہے اور پشاور کے ادبی حلقوں میں تنقیدی نشستوں میں شرکت کرتے رہے اس لیے ان کی شاعری فنی حوالے سے بہت ہی جاندار ہے ان کے ہاں فنی پختگی اول تا آخر موجود ہے ہمارے آج کے شعرا ء کے ہاں اس فنی پختگی کا فقدان ہے ۔اسی فنی پختگی کی بنیاد پر وہ اپنی شاعری کو مضبوط و توانا کرتے جاتے ہیں اور رومان و عصر کے مسائل کو یکجا کرکے اچھے شعر تخلیق کرتے ہیں ،
          ؂       مجھے وہ دونوں حوالوں سے یاد آئے گا                   میں اس سے پیار بھی کرتا ہوں اور نفرت بھی
          ؂       کسی کے قرب نے اتنا و قار تو بخشا             کہ اپنے لہجے سے ہم بے ہنر نہیں لگتے
          ؂       میں بھی اسی قبیلے کا اک فرد ہوں نذیرؔ                   دستار سے زیادہ جسے سر کا خوف ہے
          ؂       ہم نے اپنے بچوں کو کیا دیا ہے ورثے میں     عمر بھر کی محرومی ، سازشوں کے سارے دکھ
          ؂       جتنا عروج چاہا تھا تم نے وہ پالیا                 تاریخ ہم لکھیں گے تمہارے زوال کی
          ؂       جنگل میں لگا کر آگ خود ہی            بارش کی دعائیں مانگتا ہوں
          زیر تبصرہ کتاب میں ایسے سینکڑوں اشعار ملیں گے جنہیں ہم اپنے ڈائری میں لکھنا پسند کریں گے ، ایسے کئی شعر ملیں گے جو ہم بطور مثال کسی بھی وقت برموقع و محل کوٹ کرسکیں ،اور بہت سارے ایسے اشعار ملیں گے جو ہم اپنے جذبات کے اظہار کے لیے پیش کرسکیں ، کسی شاعر کی اس سے بڑھ کر کوئی کامیابی نہیں ہوتی کہ اس کے شعر زبان زد عام ہوں اور لوگ اپنے جذبات کی ترجمانی اس کے اشعار سے کریں ، نذیر تبسم ان خوش قسمت شاعروں میں شامل ہیں ۔
          ؂       اتنی بھی قربتیں نہ بڑھاؤ کہ بعد میں             بچھڑیں تو اک عذاب مسلسل نصیب ہو
                   مو سم جدائیوں کا بھی آئے گا ایک دن مانا کہ آج تم میرے بے حد قریب ہو
          یہ ایک اچھا شعری مجموعہ ہے جس کو بار بار پڑھا جاسکتا ہے اور پڑھ کر دوسروں کے ساتھ ساتھ اپنے ساتھ بھی شیئر کیا جاسکتا ہے ۔

اوپر جائیں  |   پرنٹ کیجئےِ
انگریزی ورژن ای میل چیک کریں مرکزی صحفہ پرنٹ پسندیدہ سائٹ بنائیں رابطہ کیجئے www.shahzadahmad.com www.shahzadahmad.com