نام کتاب:        اردو کا ابتدائی زمانہ  )ادبی تہذیب وتاریخ کے پہلو( مصنف: شمس الرحمن فاروقی
سال اشاعت: بار دوم ۲۰۰۱؁ء                 صفحات: ۲۰۰ قیمت:۱۲۰ روپے ) انڈین (
پبلشر: آج کی کتابیں                                  تبصرہ :        ڈاکٹربادشاہ منیر بخاری

          شمس الرحمن فاروقی اردو کے مشہور نقاد اور استاد ہیں ،وہ ماہنامہ ‘‘ شب خون’’ کے بانی مدیر ہیں اور درجن سے زائد کتابوں کے مصنف بھی ہیں ۔وہ منفرد طرز بیان کے افسانہ نگار بھی ہیں ، ان کی زیر تبصرہ کتاب دراصل شگا گو یونیورسٹی کے تحقیقی منصوبہ ‘‘تاریخ ہند میں ادبی ثقافت ’’ کے ایک حصے ابتدائی اردو پر مشتمل ہے ۔ اس کتاب کو سات ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے ، باب اول میں ، تاریخ ، عقیدہ ، اور سیاست،باب دوم میں ، تاریخ کی تعمیر نو ، تہذیب کی تشکیلِ نو،باب سوم میں شروعات ، وقفے، قیاسات ، باب چہارم میں نظری تنقید، اور شعریات کا طلوع، باب پنجم میں وقفے ،اور پھر حقیقی آغاز ، شمال میں ، باب ششم میں ولی نام کا یک شخص،باب ہفتم میں نئے زمانے ، نئی ادبی تہذیب کے عنوانات سے موضوع پر حوالے دے کر بحث کی گئی ہے ۔ کتاب کی خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس کے آخر میں کتابیات اور اشاریہ دیا گیا ہے ۔
          زیر تبصرہ کتاب اردو زبان اور ادب کے ابتدائی زمانے کے بعض اہم پہلوؤں سے بحث کرتی ہے ، جن کا تعلق لسانی اور ادبی تاریخ اور تہذیب سے ہے ، زبان کے نام کی حیثیت سے لفظ ‘اردو’ نسبتاً نو عمر ہے جس زبان کو ہم آج اردو کہتے ہیں ،پرانے زمانے میں اسی زبان کو ‘‘ ہندوی ’’ ‘‘ ہندی ’’ ‘‘ دہلوی ’’ ‘‘ گوجری ’’ ‘‘ دکنی’’ ‘‘ریختہ’’ اور‘‘ اردو معلی’’ کہا جاتا رہا ہے ،ان تمام موضوعات پر اس کتاب میں سیر حاصل تحقیقی و ادبی بحث کی گئی ہے ۔ مگر لسانیاتی تربیت نہ ہونے کی بنا پر مصنف نے خالص لسانیاتی نقطہ ٔ نظر سے کچھ زیادہ تحقیق نہیں کی اور اپنی بحث صرف ادبی تحقیق اور تنقید تک مرکوز رکھی ہے ۔
          اس کتاب میں اردو زبان کے حوالے سے کم اور ارد و ادبیات کے ابتدائی زمانہ پر زیادہ بحث کی گئی ہے اور اس سلسلے میں قدیم کتب سے نمونے بطور ثبوت پیش کیے گئے ہیں ۔ جن سے تاریخ ادب اردو پر روشنی پڑتی ہے اور اردو کے قاری اور طالب علموں کو زیادہ قدیم اور معتبر حوالوں تک رسائی ملتی ہے ۔مخطوطات اور اردو تذکروں کا خصوصی تذکرہ ملتا ہے اور پوری کتاب قدیم شعری تاریخ کے نمونوں سے بھری ہوئی ہے ،شعر کے ساتھ حوالہ بھی درج کیا گیا ہے جس سے شعر کے خالق اور زمانہ کا اندازہ ہوتا ہے اور صاحب کتاب نے شعر کی فنی باریکیوں کا بھی خیال رکھا ہے اور جہاں ضرورت محسوس کی وہاں حواشی و تعلیقات کا اضافہ کیا ہے ، جس میں تشریح و توضیع کے ساتھ ساتھ تصیح بھی کی گئی ہے ۔
          کتاب میں صوفیا ء اور ان کے کام و کلام کا تذکرہ بھی ملتا ہے اور دکن کے شعراء کا بھی خصوصاً ولی دکنی کا تذکرہ باتفصیل کیا گیا ہے ۔مصنف نے ادبی تہذیب و تاریخ کو صرف شاعری تک محدود رکھا ہے جبکہ ان ادوار میں نثر میں بھی بہت کچھ لکھا گیا ہے ۔
          یہ کتاب بطور حوالہ استعمال کی جاسکتی ہے اور اس کا اردو کے ہر لائبریری میں ہونا سود مند ثابت ہوگا ۔

اوپر جائیں  |   پرنٹ کیجئےِ
انگریزی ورژن ای میل چیک کریں مرکزی صحفہ پرنٹ پسندیدہ سائٹ بنائیں رابطہ کیجئے www.shahzadahmad.com www.shahzadahmad.com