نام کتاب:        زندگی                              مصنف: ناصر علی سید
سال اشاعت: جولائی۲۰۰۴؁ء؁             صفحات: ۲۹۶ قیمت:۳۰۰ روپے
پبلشر: پاکستان مرکزی ہندکو ادبی بورڈ پشاور تبصرہ :        ڈاکٹربادشاہ منیر بخاری

          ناصر علی سید پشاور کے جانے پہچانے ادیب و شاعر ہیں ، وہ اپنی شاعری کا اک مجموعہ شائع کرواچکے ہیں ، وہ ادبی حلقوں میں زیادہ سرگرم رہتے ہیں ، ادبی حلقے ان سے زیادہ کتابوں کے طالب رہتے ہیں مگر وہ اپنے ہم عصروں کے نسبت چھپنے کو کم ہی ترجیح دیتے ہیں ، زیر تبصرہ کتاب دراصل ان کے ہندکو ٹیلی ڈرامے کی کتابی شکل ہے ۔ یہ ڈرامہ پی ٹی وی پر آن ائیر گیا اور اسے بہت پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا گیا ، علاقائی زبانوں میں ڈرامے عموماً مختصر ہوتے ہیں مگر یہ ڈرامہ ایک مکمل ڈرامہ ہے ۔اور یہ ہندکو کا پہلا ٹیلی ڈرامہ ہے جسے کتابی شکل میں چھپا گیا ہے ، پاکستان ٹیلی ویژن کی پہچان ہی اس کے ڈرامے ہیں اس ڈرامہ کی طرح دیگر ڈرامے جو پشاور مرکز سے نشر ہوچکے ہیں ان کو کتابی صورت میں شائع کرنا چائیے ،
          اس ڈرامے کی کہانی ایک ایسی عورت کی کہانی جس کا شوہر اسے بچوں سمیت سنگ دل زمانے کے سپرد کرکے چلا جاتا ہے ، وہ نہایت وقار اور اعتماد سے بچوں کو پال پوس کر بڑا کرتی ہے بچوں کی اس نے ایسی تربیت کی ہوتی ہے کہ جب اس کا شوہر برسوں بعد لٹا پیٹا واپس آتا ہے تو اس کے بچے اسے قبول کرنے سے انکار کردیتے ہیں ۔ڈرامے میں ساتھ ساتھ ذیلی کہانیاں بھی چلتی ہیں ۔ ڈراما کا پلاٹ بہت ہی گھتا ہوا اور وحدت تاثر کا حامل ہے اس لیے ناظر اور قاری ڈرامہ سے ایک لمحے کے لیے بھی توجہ نہیں ہٹاتا ، تجسس کو کمال خوبصورتی کے ساتھ ابھارا گیا ہے ، اور کرداروں کو فطری انداز میں آگے بڑھایا گیا ہے ۔بعض اوقات کرداروں سے ان کے قد سے کچھ زیادہ فلسفیانہ گفتگو کروائی جاتی ہے جو عام ناظریں اور قاری کی دلچسپی کو کم کردیتا ہے مگر باشعور ناظر اور قاری اس فلسفیانہ گفتگو سے لطف اندوز ہوتا ہے ۔
          کتاب خوبصورت گیٹ آپ میں چھپی ہے ۔ کتاب کی ابتدائی صفحات پر خاطر غزنوی ،عتیق احمد صدیقی ، ڈاکٹر اعجاز راہی ، فضل حسین صمیم اور ناصر علی سید کی آراء کو جگہ دی گئی ہے ۔ جبکہ کتاب کے بیک فلیپ پر ڈرامہ کے ایک سین کے مکاملے درج ہیں ۔ کتاب ہندکو زبان میں ہے مگر ڈرامے میں ہدایت اردو میں لکھے گئے ہیں ، ہندکو زبان عربی رسم الخط میں لکھی جارہی ہے ، مگر ہنوز کسی ماہر لسانیات نے ہندکو کی اپنی آوزوں کے لیے حروف تہجی وضع نہیں کیے اس لیے جہاں جہاں ہندکو کی آپنی آوازیں آتی ہیں وہاں قریب الصوت اشکالی صورت کو بطور حرف کے استعمال کیا جاتا ہے ۔ پشتو ، کھوار اور شنا زبان میں یہ مسئلہ تھا مگر ان زبانوں کے علماء نے اپنے الگ حروف تہجی وضع کرکے اس مشکل پر قابو پالیا ہے ۔ ہندکو جیسی بڑی زبان کو اگر تحقیق و تدریس تک لے جانا ہے تو سب سے پہلے اس مسئلہ کو حل کرنا ہوگا ۔ کسی اچھی لینگویج لیب میں ہندکو کی اپنی آوازوں کا باقاعدہ صوتی تجزیہ کرکے اس مشکل کوحل کیا جاسکتا ہے ۔ دیکھتے ہیں کہ ہندکو کے ارباب اختیار کب اس طرف توجہ دیتے ہیں ، زیر تبصرہ کتاب میں مصنف نے اس مشکل کو اردو میں مروج رسم الخط سے رفع کرنے کی کوشش کی ہے اور وہ اس میں بہت حد تک کامیاب بھی ہوئے ہیں مگر ان کی ہندکو پشاور ی لہجے کی ہندکو ہے جبکہ ہزارہ یا کوہاٹ کا لہجہ اردو رسم الخط میں مشکل سے ادا ہوتا ہے ۔
          کتاب کی تقسیم ڈرامے کے اقساط کے ترتیب سے کی گئی ہے اور تیرہ قسطوں میں ڈرامہ مکمل کیا گیا ہے اور کتاب میں بھی اسی ترتیب کو برقرار رکھا گیا ہے ، عموماً جب ڈرامے کتابی صورت میں آتے ہیں تو اقساط کی ترتیب کو ختم کردیا جاتا ہے تاکہ ڈرامے کی روانی متاثر نہ ہو۔ کتاب کے آخر میں ڈرامے کے حوالے سے مختلف لوگوں کی اراء جمع کی گئی ہیں اور ناصر علی سید نے بھی ایک دو صفحوں میں رائے دینے والوں کا شکریہ ادا کیا ہے ، کتاب کے آخری دو صفحوں پر رفعت علی جو ناصر علی سید کی بیگم ہیں ان کا تبصرہ شامل کیا گیا ہے ۔
          ہندکو میں افسانے چھپے شاعری چھپی تنقید کی کتابیں سامنے آئیں ،اور اب ڈراما کتابی صورت میں چھپا ہے یہ ایک خوش آئند سلسلہ ہے اسے رکنا نہیں چائیے ، اس لیے کہ ہندکو میں لکھنے والوں کے پاس بہت کچھ ہے لکھنے کے لیے بس ایک ہمت کی دیر ہے ۔

اوپر جائیں  |   پرنٹ کیجئےِ
انگریزی ورژن ای میل چیک کریں مرکزی صحفہ پرنٹ پسندیدہ سائٹ بنائیں رابطہ کیجئے www.shahzadahmad.com www.shahzadahmad.com